سورة الانعام - آیت 112

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٥١) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شیاطین انسانوں سے کیا مراد ہے: وہ افراد جو حق کی دشمنی کے لیے، دین کو نیچا دکھانے کے لیے قائدین کا رول ادا کرتے ہیں۔ دو گروہ (۱) جن۔ (۲) انسان، ان میں قدر مشترک شیطان، سرکش، گمراہ اور اللہ کا دشمن ہونا ہے۔ یہ سب شیطانی قوتیں انبیاء کے مقابلہ میں ڈٹ کھڑی ہوتی ہیں، اور یہ حق کے مقابلہ میں باطل سیدھے راستے کے مقابلے میں ٹیڑھا راستہ، دھوکا دینا، فریب دینا اور کئی خوش آئند تدابیر پیش کرتے ہیں جو بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہیں مگر اصل میں وہ مکر و فریب ہوتا ہے جیسے (۱)یہودیوں نے ایک تدبیر یہ کی تھی کہ کچھ یہود ایمان لے آئیں پھر تھوڑے عرصہ بعد مرتد ہوجائیں۔ معاشرہ ہمارے اس فعل سے یہ اثر لے گا کہ یقینا دال میں کچھ کالا ہے، ورنہ یہودی تو عالم لوگ ہیں۔ اگر اسلام سچا مذہب ہوتا تو یہ حق سے کیسے انحراف کرسکتے تھے۔ (۲) مشرک کہتے تھے کہ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اللہ کے مارے ہوئے (مردار) کو حرام سمجھتے ہیں اور اپنے مارے ہوئے (ذبح کردہ) کو حلال قرار دیتے ہیں۔ ایسی مکر و فریب والی تدابیر شیاطین اس لیے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں اور یہ بات مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خوب تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے بُرائی بہت جلد فروغ پاتی ہے۔ رب چاہتا تو وہ ایسا کام نہ کرتے: یعنی اللہ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے لیکن وہ بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔