وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اسی طرح ہم آیتیں مختلف طریقوں سے بار بار واضح کرتے ہیں (تاکہ تم انہیں لوگوں تک پہنچا دو) اور بالآخر یہ لوگ تو یوں کہیں کہ : تم نے کسی سے سیکھا ہے (٤٣) اور جو لوگ علم سے کام لیتے ہیں ان کے لیے ہم حق کو آشکار کردیں۔
قرآن میں مختلف اوقات میں، مختلف ماحول میں، مختلف انداز بیان سے دلائل بیان کرنے کہ دو بڑے فائدے ہیں۔ (۱)آیات الٰہی پر غوروفکر کرنے سے کسی وقت بھی ہدایت نصیب ہوسکتی ہے۔ (۲)مشرکین اور متعصب لوگوں کی کج فہمی کھل کر سامنے آجائے جو یہ کسی صورت ماننے کو تیار نہیں کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے اور کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے پڑھ اور سیکھ کر آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّااِفْكُ ا۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًا۔ وَ قَالُوْا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ﴾ (الفرقان: ۴۔ ۵) ’’اور کافروں نے کہا یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہواہے۔ جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعویٰ کرکے ظلم اور جھوٹ پر اُتر آئے ہیں، نیز انھوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے۔‘‘ جس طرح یہ سمجھتے اور دعویٰ کرتے ہیں، بات یہ نہیں بلکہ آیات کو مختلف پیرائیوں میں بیان کرنے سے مقصد سمجھ دار لوگوں پر حجت پوری ہوجائے۔ یعنی ان پر حقیقت واضح ہوجائے۔