قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ
(اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کے سامان پہنچ چکے ہیں۔ اب جو شخص آنکھیں کھول کر دیکھے گا، وہ اپنا ہی بھلا کرے گا، اور جو شخص اندھا بن جائے گا، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور مجھے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے۔ (٤٢)
بصیرت افروز دلائل سے مراد: جو علم اللہ کی طرف سے آیا ہے یعنی اللہ کا کلام، دلائل، حجتیں جو قرآن اور حدیث میں موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص ان پر غوروفکر کرے گا تو یقینا حقیقت کو پالے گا اور اس میں اسی کا بھلا ہے۔ اور جو خود ہی کچھ سمجھنا نہیں چاہتا تو وہ خود ہی اس کا نقصان برداشت کرے گا، قرآن کریم آنکھوں سے پردے ہٹا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (بنی اسرائیل: ۱۵) ’’جو کوئی راہ راست اختیار کرے اسکی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو گمراہ ہو اسکی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا، اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں کہ جب تک لوگوں کو (حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغمبر نہ بھیج دیں۔‘‘ یعنی جب اللہ نے قرآن دے دیا، حکمت، ہدایت دے دی پھر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو اللہ ان پر نگران نہیں ہے۔