سورة الانعام - آیت 95

إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ جاندار چیزوں کو بے جان چیزوں سے نکال لاتا ہے، اور وہی بے جان چیزوں کو جاندار چیزوں سے نکالنے والا ہے۔ (٣٥) لوگو ! وہ ہے اللہ پھر کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لئے جارہا ہے ؟ (٣٦)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہورہا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گٹھلی کو جسے کاشت کار زمین میں دبا دیتا ہے۔ پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے زمین ایک ہوتی ہے پانی بھی، جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں ایک ہی ہوتا ہے لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یعنی بیج اور گٹھلیاں ہوتی ہیں اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلوں اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرما دیتا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی ہے جو یہ کام کرسکتا ہو یا کرتا ہو۔ اخروی زندگی پر دلیل: وہ زندہ سے مردہ چیز اور مردہ سے زندہ چیز پیدا کرتا ہے۔ کوئی انسان یا کوئی دوسری مخلوق یہ کام نہیں کرسکتی۔ زندہ سے مردہ اور مردہ سے پیدا کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً اللہ نے بے جان مٹی سے انسان کو پیدا کیا پھر اسکی تمام ضروریات بھی اس مٹی سے وابستہ کردیں۔ پھر مرنے کے بعدانسان پھر اسی مردہ مٹی میں چلا جاتا ہے، مثلاً زندہ مرغی سے انڈا پیدا ہوتا ہے جبکہ انڈا مردہ ہے جس سے مرغی پیدا ہوتی ہے۔ انسان کی تخلیق: کسی مشین کو بنانے کے لیے سارے پُرزے الگ الگ بناکر جوڑنا ہے پھر وہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں مشین بنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو بناتا ہے تو یکمشت بناتا ہے۔ پودا: اس کی جڑ نکلتی ہے اس کی زندگی کا آغاز یکمشت ہوجاتا ہے اور یہ علم بھی انسانوں کو اللہ ہی دیتا ہے۔ زندگی ایک راز ہے اس کو کوئی انسان نہیں پاسکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ اَحْيَيْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ﴾ (یٰٓس : ۳۳) ’’اور ایک نشانی ان کے لیے مردہ زمین ہے۔ ہم نے اسکو زندہ کیا اس میں سے اناج نکالا پھر وہ اس کو کھاتے ہیں۔‘‘ امام مالک سے ہارون رشید نے دلیل پوچھی فرمایا نغموں کا جدا ہونا۔ زبانوں کا مختلف ہونا۔ امام ابو حنیفہ نے کہا! چھوڑو میں تو کسی اور ہی سوچ میں ہوں کہ کیا ایک کشتی، سازوسامان سے لدی ہوئی، سمندر میں خود بخود چلتی ہے ایک کشتی تو بغیر کسی کے چلائے نہ چلے اور اتنی بڑی کائنات بغیر کسی کے چلے یہ سن کر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ ایک پتہ کیڑا کھا کر ریشم پیدا کرتا ہے شہد کی مکھی شہد پیدا کرتی ہے۔ اونٹ کھاتا ہے تو مینگنی کرتا ہے۔ پھر تم کہاں سے بہکائے جاتے ہو: کوئی تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے جب انسان غافل ہوجاتا ہے بھول جاتا ہے کہ کہاں سے آیا ہے، کہاں جانا ہے مقصد زندگی بھول جاتا ہے آخرت کا حساب کتاب بھول جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمہارا رب ہے جو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو نكالتا ہے پھر تم اللہ کو چھوڑ کر جہاں بھی جاؤ گے بہک جاؤ گے۔ سورۃ واقعہ کی آیت نمبر ۵۸ تا ۶۰ میں بھی یہی مضمون مذکور ہے کہ کیا تم نے کبھی غور کیا کہ جو نطفہ تم ڈالتے ہو یہ بتاؤ اس سے تم پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقرر کیا ہے اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہو پھر سبق کیوں نہیں لیتے توحید کے دلائل کا اصل مقصد، انسان رب کی اطاعت کرے، رب کو ماننے والا ہوجائے۔