وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
اور (اسی طرح) یہ بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے، پچھلی آسمانی ہدایات کی تصدیق کرنے والی ہے، تاکہ تم اس کے ذریعے بستیوں کے مرکز (یعنی مکہ) اور اس کے اردگرد کے لوگوں کو خبردار کرو۔ اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اور وہ اپنی نماز کی پوری پوری نگہداشت کرتے ہیں۔
’’ وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ‘‘ اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے جو انسان کی ضروریات اور باریکیوں کو جانتا ہے یہ جس مہینہ میں نازل ہوئی وہ مہینہ مبارک ہے، وہ رات مبارک ہے وہ ہستی مبارک ہے جس پر نازل ہوئی اور اُسے پوری دنیا کا لیڈر بنا دیا۔ اور وعدہ دیا کہ اُمید ہے تمہیں مقام محمود عطا کرے گا یہ کتاب اپنے مضامین اور ہدایات کے لحاظ سے بھی بابرکت ہے اس میں توحید کا موضوع، آخرت کا موضوع، رسالت کا موضوع، اپنی تربیت کے حوالے سے ہر لحاظ سے برکت والی ہے جو اسکو قبول کرے اللہ تعالیٰ اُسے بلندی و برکت عطا فرماتے ہیں اور اسکی زندگی کو محفوظ کردیتے ہیں یہ کتاب ہی کی برکت کا نتیجہ تھا کہ عرب جیسی جاہل قوم کو جو قبائلی عصبیت کی وجہ سے ہر وقت لڑتی مرتی رہتی تھیں چند ہی سالوں میں ایک مہذب قوم بناکر انکی کایا ہی پلٹ دی۔ ان کے اقدار و اخلاق اس قدر اعلیٰ بن گئے کہ یہی جاہل اُجڈ، وحشی قوم تمام اقوام عالم کی پیشوا بن گئی۔ اس اُمت کے پہلے حصہ کی اصلاح جیسے ہوئی تھی آخری حصے کی بھی ایسے ہی ہوگی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اور روز قیامت کے پڑھنے والوں کے حق میں سفارش ہوگی اور جنت میں لے جائے گی اور جس نے اسے پیچھے ڈالا اور اُسے جہنم میں لے جائے گی۔ قرآن کتابوں کی تصدیق کرتا ہے: قرآن بگڑے ہوئے کلام کی تصدیق نہیں کرتا بلکہ جو اللہ کی طرف سے علم آیا یعنی پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے جس میں تحریف نہ کی گئی ہو۔ قرآن پچھلی کتابوں کی تصدیق اس لیے کرتا ہے کہ جو اصول قرآن میں ہیں وہی پچھلی کتابوں کا تسلسل ہیں۔ ام القریٰ: مکہ والوں کو ڈرادو: مکہ میں جو گھر سب سے پہلے تعمیر کیا وہ انسانوں کی عبادت کے لیے، امن کا شہر ہے سارے جہانوں کو یہاں سے پیغام پہنچا، یہ اللہ کا دیا ہوا ہدایت کا گھر ہے۔ اللہ کا پلان ہے کہ عین دنیا کے بیچ میں اللہ کا گھر قائم کیا جائے ۔ قرآن کا مقصد کہ مکہ والوں کو ڈرا دو۔ انجام کی فکر، جواب دہی کا احساس اور کتاب سے تعلق گہرا ہوگا۔ جب تک انسان کے دل میں آخرت کا خوف نہیں ہوگا وہ نیکی کا کام کرنے کے قابل نہیں ہوگا، جیسی زندگی چاہے آگ کی یا جنت کی، آج اس کی فکر کرلو۔ نماز کی فکر کرلو۔ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہے وہ کتاب سے تعلق جوڑ لیتا ہے۔ موت شام زندگی ہے اختتام زندگی نہیں ہے اس کے بعد ہمیشہ کی زندگی ہے جنت یا جہنم۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر نماز کے وقت فرشتہ پکارتا ہے کہ لوگو اٹھو! آگ کو بجھانے کے لیے جو تم نے گناہوں سے جلائی ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد: ۱۶۵۹، الجامع الصغیر: ۲۳۵۸) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ نے فرمایا : جس نے نماز کی کی حفاظت کی وہ اس کے لیے نور ہوگی برہان ہوگی، نجات ہوگی، جس نے حفاظت نہ کی نہ نور، نہ بُرہان نہ نجات ہوگی، وہ قارون فرعون اور ہامان کے ساتھ ہوگا۔ (مسند احمد: ۲/ ۱۶۹، ح: ۶۵۷۶) مسلمان اور کافر کے درمیان حد فاصل نماز ہے، نماز سنت کے مطابق ہوگی تو کامیاب ورنہ نامراد۔ نوافل کے ساتھ فرائض کو پورا کردیا جائے گا۔ (بخاری: ۳۱۴، ابو داؤد: ۴۶۸۰)