أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ
یہ لوگ (جن کا ذکر اوپر ہوا) وہ تھے جن کو اللہ نے (مخالفین کے رویے پر صبر کرنے کی) ہدایت کی تھی، لہذا (اے پیغمبر) تم بھی انہی کے راستے پر چلو۔ (مخالفین سے) کہہ دو کہ میں تم سے اس (دعوت) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو دنیا جہان کے سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے، اور بس۔
مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کافر و مشرک لو گ اللہ کی اس ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کردیں ہم نے اہل ایمان کا ایسا گروہ پیدا کردیا ہے جو اس نعمت کی قدر کرنے والا ہے۔ تمام انبیاء کے دین کی اساس: ایک ہی رہی ہے یعنی توحید پرستی، شرک سے بیزاری اور اس کے خلاف جہاد۔ اللہ کی فرمانبرداری اور روز آخرت پر ایمان وغیرہ۔ لہٰذا جو کچھ ان کا دین تھا آپ کو بھی وہی دین اختیار کرنا چاہیے اُسی کی اتباع کرنا چاہیے۔ ہر نبی کو اسکے زمانے کے لحاظ سے شریعت دی گئی تھی اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ جو حکم کسی نبی کی شریعت میں مذکور ہو اور اللہ نے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حکم بیان کرتے ہوئے اُس پر منع نہ فرمایا ہو، وہ حکم اُمت محمدیہ کے لیے بھی واجب الاتباع ہوگا قرآن کریم میں اس کی مثال اعضاء و جوراح کا قصاص ہے ۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک کان کے بدلے کان، یہ تورات کا حکم ہے جسے قرآن نے سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ۴۵ میں بیان فرمایا ہے اس پر نکیر نہیں فرمائی لہٰذا یہ حکم اُمت محمدیہ کے لیے بھی قابل اتباع ہے۔ جیسے تورات میں شادی شدہ زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنے کا حکم تھا۔ آپ کے پاس ایسے ہی ایک شادی شدہ جوڑے کا مقدمہ لایا گیا جو یہودی تھے، تو آپ نے ان کے سنگسار کرنے کا حکم دیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا ’’اے اللہ سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جسے ان یہودنے مردہ کردیا تھا۔ (مسلم: ۱۷۰۰) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے نکیر کے اس حکم کو زندہ کرنے کی تحسین فرمائی تو یہ رجم اُمت محمدیہ کے لیے بھی واجب الاتباع ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی رسالت تمام اقوام عالم اور قیامت تک کے لیے ہے۔ اور یہ قرآن بھی اسی طرح سب لوگوں کے لیے کتاب ہدایت ہے۔ قرآن انھیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کرے گا۔