وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ لوگ (یعنی یہودی) کہتے ہیں جہنم کی آگ ہمیں کبھی چھونے والی نہیں (کیونکہ ہماری امت خدا کے نزدیک نجات پائی ہوئی امت ہے) اگر ہم آگ میں ڈالے بھی جائیں گے تو (اس لیے نہیں کہ ہمیشہ عذاب میں رہیں بلکہ) صرف چند گنے ہوئے دنوں کے لیے (تاکہ گناہ کے میل کچیل سے پاک صاف ہو کر پھر جنت میں جا داخل ہوں)۔ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دو یہ بات جو تم کہتے ہو تو (دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو) تم نے خدا سے (غیر مشروط) نجات کا کوئی پٹہ لکھا لیا ہے کہ اب وہ اس کے خلاف جا نہیں سکتا، اور یا پھر تم خدا کے نام پر ایک ایسی بات کہہ رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں
یہ آیت بتاتی ہے کہ قیامت کے دن انصاف کے ساتھ بدلہ ملے گا پھر یہ خوش فہمی کہ ہمیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ۔ دراصل اللہ کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ تمہارے اس باطل عقیدہ کہ ہمیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی اس کا اللہ نے کوئی تم سے وعدہ کر رکھا ہے تو پھر اُسے دکھاؤ تو سہی کہ تم ایسے ہی اللہ پر جھوٹی باتیں گھڑدیتے ہو۔ اگر تمہیں یقین ہے کہ دوزخ کی آگ تمہیں نہیں چھوئے گی۔ تو پھر مرنے کی آرزو کیوں نہیں کرتے اور دنیا کے جھنجھٹوں سے چھوٹ کر ہمیشہ جنت میں جانے کی آرزو کیوں نہیں کرتے۔ یہود مرنے کے لیے بالکل آمادہ نہیں بلکہ طویل مدت تک دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں ہم بھی یہی آرزو رکھتے ہیں کہ ہمیں لمبی زندگی ملے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ندامت ہی توبہ ہے برائی کا احساس ہوجائے تو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ بولنا اختیار کرو ۔ سچ بولنا نیکی کا راستہ دکھاتا ہے۔ اور نیکی یقیناً جنت کا راستہ دکھاتی ہے جو ہمیشہ سچ بولتا ہے اور کوشش کرتا ہے اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے۔جھوٹ سے بچو جھوٹ فسق تک اور پھر فسق فجور تک لے جاتا ہے اور فجور پھر دوزخ تک لے جاتا ہے ۔ (بخاری: ۶۰۹۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کم لوگ ہلاک نہیں ہونگے یہاں تک کہ ان کے گناہ بہت زیادہ ہوجائیں۔ ایک قریشی شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور مجھے زنا کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنی والدہ سے زنا کرنا پسند کرو گے ۔ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم ہرگز نہیں۔ آپ نے پوچھابیٹی کے لیے۔ بہن کے لیے۔ پھوپھی کے لیے ۔ خالہ کے لیے اس نے کہا ہرگز نہیں۔ آپ نے اُس کے سر پر اپنا داہنا ہاتھ رکھ کر اللہ سے اُس کی بخشش کی دعا کی اور وہ بدل گیا۔ پھر اس نے کبھی کسی کی طرف توجہ نہیں کی۔(مسند احمد: ۵/ ۲۵۶، ح: ۲۲۲۱۱) کراہت دلانے سے برائی دور ہوجاتی ہے۔ محض کینے سے نہیں ہوتی۔