الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا (٣٠) امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے، اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے ایک حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے ظلم کا عام مطلب، (کوتاہی، غلطی گناہ، زیادتی وغیرہ) سمجھا جس پر وہ پریشان ہوگئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم میں سے کونسا ایسا ہے جس نے کبھی ظلم نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا کہ یہاں ظلم شرک کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورۃ لقمان میں آیاہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹا کبھی شرک نہ کرنا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (مسلم: ۱۲۴، بخاری: ۴۶۲۹) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ شرک کے اثرات سے بچو‘‘لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ فرمایا: ’’ریاکاری‘‘، قیامت کے دن اللہ فرمائے گا، ان لوگوں کے پاس جاؤ جن سے تم دنیا میں مانگتے تھے، جس نے دکھاوے کا کام کیا قیامت کے دن اللہ اس دکھاوے کو دکھا دے گا۔ (ابن حاتم: ۳/ ۱۰۵)