سورة الانعام - آیت 61

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہی اپنے بندوں پر مکمل اقتدار رکھتا ہے اور تمہارے لیے نگہبان (فرشتے) بھیجتا ہے۔ (٢٣) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اس کو پورا پورا وصول کرلیتے ہیں، اور وہ ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

نگران فرشتے سے مراد حفاظت کرنے والے اور اعمال لکھنے والے فرشتے ہیں: رات کے الگ فرشتے ہوتے ہیں اور دن کے الگ، ان کے علاوہ کچھ فرشتے ایسے بھی ہوتے ہیں جو جان کی حفاظت کرتے ہیں، اکثر اوقات ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں جب موت سامنے کھڑی نظر آتی ہے کہ حالات کا رخ ایسا پلٹا کھاتا ہے کہ انسان کی جان بچ جاتی ہے۔ او ر وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ اس وقت اللہ ہی تھا جس نے اس کی جان بچائی یا یہ کہ ابھی زندگی باقی ہے ورنہ بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ابھی موت کا معین وقت آیا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بندوں پر پوری قدرت رکھتا ہے: یعنی تمام انسان اللہ تعالیٰ کے طبعی قوانین کے سامنے بالکل بے بس ہیں مجبور ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم مادر میں بچے کو جیسی چاہے شکل دیتا ہے۔ پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں، پیدائش کے بعد کھانا پینا اور پرورش کرنا اللہ کے اختیار میں انسان مجبور و بے بس ہے اسی طرح بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی منازل طے کرنے پر بھی مجبور ہے۔ جنسی ملاپ پر بھی مجبور ہے لیکن اولاد پیدا کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے وہ چاہے تو کسی نادار کو کثیر اولاد والا بنادے اور چاہے تو کسی امیر کبیر کو اولاد سے محروم کردے، پھر وہ مرنے پر بھی مجبور ہے جب تک اس کی زندگی کی معین مدت پوری نہیں ہوتی چاہے کیسے ہی حوادث سے دو چار ہو فرشتے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ اور جب مقرر ہ وقت آجائے تو کوئی حکیم، ڈاکٹر مال و دولت عزیز رشتہ دار موت کے منہ سے نہیں بچا سکتے، رزق جتنا مقدر میں ہوتا ہے مل کر رہتا ہے انسان کی خواہش سے نہیں ملتا۔ اسی طرح انسان موت کے جواب دہی کے لیے اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے اعمال کی سزا و جزا پانے پر بھی مجبور ہے۔ کوئی چیز نہ آڑے آسکتی ہے نہ بچا سکتی ہے یہی اللہ کا اختیار ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمِ سلمہ سے فرمایا: ’’میری امت میں گناہوں کی کثرت ہوجائے گی اللہ خاص و عام سب پر اپنا عذاب اتار دے گا۔‘‘ (ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں) میں نے عرض کیا:’’کیا نیک اور صالح بندوں پر بھی؟‘‘ فرمایا جو اُفتاد آئے گی ان پر بھی آئے گی پھر ان پر اللہ کی رضا اترے گی اور ان کی بخشش ہوگی۔‘‘ (معجم الکبیر: ۲/ ۱۴۳) حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آدمی اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجاتا ہے‘‘ (مسند احمد: ۵/ ۲۷۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ڈر ہے دنیا کی قومیں تم پر ہر طرف سے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے کھانے کے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔‘‘ صحابہ نے پوچھا کیا ہماری تعداد کم ہوگی ۔ فرمایا کثرت ہوگی مگر تمہاری حالت سیلاب کے خس و خاشاک جیسی ہوگی، تمہارے دشمن پرتمہارا رعب ختم ہوجائے گا تمہارے دلوں میں وہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ نے پوچھا ’’وہن کیا ہے۔‘‘ فرمایا زندگی سے محبت اور موت کا ڈر۔ (موسوعۃ الحدیث: ۶/ ۱۱۸) لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا قرآن کے صرف حروف باقی رہ جائیں گے، مسجدیں سجائی جائیں گی، علماء میں زیادہ بُرے لوگ ہونگے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں تشریف لائے کہ آپ کی سانس پھولی ہوئی تھی وضو کرکے باہر تشریف لے گئے۔ منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا لوگو! اللہ سے ڈرو، اللہ کا حکم ہے کہ امربالمعروف کرو قبل اس کے کہ تمہاری دعائیں قبول نہ کی جائیں، تم نصرت اور امداد چاہو اور مدد نہ کی جائے، تم مانگو اور تمہارا سوال رد کردیا جائے کچھ نہ دیا جائے ۔ (طبری: ۲/ ۴۱۸)