وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پکارتے رہتے ہیں۔ (١٩) ان کے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اور تمہارے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے جس کی وجہ سے تم انہیں نکال باہر کرو، اور ظالموں میں شامل ہوجاؤ۔
اپنے سے دُور نہ کیجئے: یعنی یہ بے سہارا اور غریب لوگ جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں مشرکین کے مطالبہ پر انھیں اپنے سے دور نہ کیجئے۔ قریش کے بعض معززین آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنے کو دل چاہتا ہے مگر آپ کے اردگرد کچھ حقیر سے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اگر آپ ان کو اپنی مجلس سے نکال دیں تو ہم آپ کے پاس آنے کو تیار ہیں۔ آپ چونکہ بڑے بڑے قریشی سرداروں کے ایمان لانے پر بڑے حریص تھے لہٰذا دل میں کوئی ایسی ترکیب سوچ ہی رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد: ۱/ ۴۲۰) سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیجئے۔ تاکہ یہ ہم پر جرأت نہ کریں وہ چھ آدمی یہ تھے۔ میں خود۔ عبداللہ بن مسعود، ہذیل کا ایک آدمی۔ بلال اور دو آدمی جن کا میں نام نہیں لیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو اللہ نے چاہا خیال آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم: ۴۶/ ۲۴۱۳) اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا صحابہ کی بہت تعریف فرمائی اور فرمایا کہ ان کو ہٹانے کی بات ہرگز نہ کیجئے کہ سچے مومنوں کو اس طمع سے ہٹا دیں کہ دوسرے لوگ آکر بیٹھیں جن کا ایمان لانا بھی یقینی نہ ہو۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔ دوخصوصیات کی وجہ سے اللہ نے ان حضرات کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہونے سے بچایا۔ (۱)صبح شام اللہ کو پکارنا۔ (۲) اور رب کی رضا چاہنا۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کیا میں تمہیں جنتیوں کی خبر نہ دوں‘‘ فرمایا! ہر شخص جس کو کمزور سمجھاجاتا ہے اگر وہ رب کی قسم کھالے تو اللہ اُسے پوری کردیتا ہے۔ (۲) بہت پراگندہ انسان جس کو گھروں کے دروازوں سے دھکیل دیا جاتا ہے اگر وہ قسم کھالیں تو اللہ اُنکی قسم پوری کردیتا ہے۔ (۴) جنت اور جہنم میں جھگڑا۔ جنت میں کمزور اور مسکین لوگ ہونگے، خود پسند، سرکش، بخیل اور متکبر لوگ جہنم میں ہونگے جس کو چاہونگا عذاب دونگا، تم دونوں کا بھرنا میری ذمہ داری ہے۔ (مسند احمد: ۲/ ۵۰۷، ح:۱۰۵۸۹) رب کی رضا کیسے ملتی ہے: توجہ سے دل کے جھکاؤ سے خشوع و خضوع سے، اللہ کے آگے اپنی کمتری کا احساس کرنے سے، جب انسان اللہ کی بڑائی کو تسلیم کرتا ہے پھر وہ راتوں کو اٹھ کر آنسو بہاتا ہے پھر مقام بندگی ملتا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا ’’بندہ برابر نفل عبادت سے رب کے قریب ہونا چاہتا ہے پھر میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں کان، آنکھ، اور پاؤں بن جاتا ہوں۔‘‘ (بخاری: ۶۵۰۲) زندگی کی حقیقت کیا ہے: زندگی فنا ہونے والی یہ ہے ہم اللہ کے ہیں اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ زندگی کس لیے ملی: امتحان کے لیے۔ کیوں آئے جانا کہاں ہے: عبودیت کے اظہار کے لیے اللہ کی غلامی کے لیے رات دن اللہ کو پکارنے والا اللہ کو پالیتا ہے اللہ راضی ہوجائے تو جنت ملے گی۔ اللہ کو اپنا کیسے بنائے: اللہ کے بارے میں سوچتے رہنا چاہیے رب سے دعائیں کریں ذکر کریں۔ اپنی زندگی کو چارحصوں میں تقسیم کریں۔ (۱) ایک گھڑی رب کی یاد میں۔ (۲)کائنات پر غوروفکر میں۔ (۳) رب سے سرگوشیاں کرنے میں۔ (۴)اپنی ضروریات کے لیے ۔