فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تھی، اس وقت وہ عاجزی کا رویہ اختیار کرتے؟ بلکہ ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، شیطان نے انہیں یہ سجھایا کہ وہی بڑے شاندار کام ہیں۔
جب انسان مصائب و حادثات سے نصیحت حاصل نہیں کرتا تو اس سے دل سخت ہوجاتے ہیں وہ اپنے آپ کو مطمئن کرتا ہے کہ یہ اُتار چڑھاؤ تو زندگی کا حصہ ہیں اس وقت شیطان ان کے اعمال کو خوبصورت بناکر ان کی توجہ رب سے ہٹا دیتا ہے دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے اور یہ زنگ اللہ کے تعلق کو کھا جاتا ہے چاہے تو یہ کہ جب مشکلات آئیں تو انسان اپنے اندر جھانکے غوروفکر کرے، اللہ کے آگے جھکے اور سوچے کہ غلطی کہاں پر ہوئی اللہ کی پناہ کے سوا کوئی پناہ نہیں، انسان ماں باپ میں پناہ ڈھونڈتا ہے، اولاد کے سائے میں ڈھونڈتا ہے۔ رب کے سوا کوئی رب سے بچانیوالا نہیں۔ قوموں نے اگر عاجزی قبول کی ہوتی: نوح علیہ السلام کی قوم نے عاجزی قبول نہیں کی ان کے بیٹے نے کہا کہ میں اپنے آپ کو پہاڑ پر چڑھا لونگا، اللہ نے ڈبو دیا۔ دل سخت ہوگیا عذاب کیوں نہ آئے۔ دل کی سختی دور کرنے کے لیے: (۱) کثرت سے اللہ کا کلام پڑھیں۔ (۲)یتیم کے سرپر شفقت سے ہاتھ پھیریں۔ (۳) مسکینوں کو کھانا کھلائیں ان کا خیال رکھیں۔ (۴) مردوں کو نہلانے سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا ’’میرے دل پر کبھی کبھی غفلت آتی ہے میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم: ۲۶۹۱) (۵)کثرت سے کلام مت کرو اللہ کے ذکر کے سوا۔