بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
حالانکہ (ان کی یہ آرزو بھی سچی نہ ہوگی) بلکہ دراصل وہ چیز (یعنی آخرت) ان کے سامنے کھل کر ااچکی ہوگی جسے وہ پہلے چھپایا کرتے تھے (اس لیے مجبورا یہ دعوی کریں گے) ورنہ اگر ان کو واقعی واپس بھیجا جائے تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے، اور یقین جانو یہ پکے جھوٹے ہیں۔
جب ان پر یہ حق واضح ہونے کے دلائل سامنے آتے تو انکی کوشش ہوتی کہ ان پر پردہ ہی پڑا رہے اور کوئی ان دلائل کو سن بھی نہ سکے۔ وہ حق قیامت کے دن ظاہری صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو کریں گے اور فرمانبردار بن کر رہنے کا وعدہ کریں گے لیکن چونکہ یہ وعدہ شوق ورغبت کی بنا پر نہ ہوگا بلکہ جہنم کا عذاب دیکھ کر اضطراری وعدہ ہوگا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ کم بخت اب بھی جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ اگر ان کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو یہ پھر دنیا کی رنگینیوں میں منہمک ہوکر اپنا وعدہ بھول جائیں گے جیسے جب انسان مصیبت اور پریشانیوں میں مبتلا ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے توبہ تائب ہوتا ہے مگر مصیبت سے نجات پانے کے بعد جب چند دن عیش و آرام میں گزارتا ہے تو اُسے یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اس وقت کیا عہد و پیمان کیے تھے یہ دراصل ہیں ہی جھوٹے۔