وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَن يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِن يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں، مگر (چونکہ یہ سننا طلب حق کے بجائے ضد پر اڑے رہنے کے لیے ہوتا ہے، اس لیے) ہم نے ان کے دلوں پر ایسے پردے ڈال دییے ہیں کہ وہ اس کو سمجھتے نہیں ہیں، اور ان کے کانوں میں بہرا پن پیدا کردیا ہے۔ اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کے لیے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پچھلے سلوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں۔
مشرکوں کے دنیاوی رویے کا بیان ہے کہ حق سے دشمنی کی وجہ سے ان کے دلوں پر ایسے غلاف ہیں جو انھیں کچھ سمجھنے نہیں دیتے یعنی مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں اس لیے بے فائدہ ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردے اور کانوں میں ڈاٹ ڈالدیے ہیں جس کی وجہ ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر ہیں اور ان کے کان حق سننے سے عاجز ہیں۔ اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سناتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ ہمیں کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں: جب کوئی اپنے آپ کو حق سے دور کرلیتا ہے پھر وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے کہتا ہے کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔