قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
کہہ دو کہ : کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رکھوالا بناؤں؟ (اس اللہ کو چھوڑ کر) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جو سب کو کھلاتا ہے، کسی سے کھاتا نہیں؟ کہہ دو کہ : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ فرمانبرداری میں سب لوگوں سے پہل کرنے والا میں بنوں۔ اور تم مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔
الٰہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت کسی کا محتاج نہ ہونا چاہیے: (۱)حقیقی معیار تمام کائنات کو اسی نے پیدا کیا۔ (۲) وہ دوسروں کو کھلاتا ہے خود کسی سے کچھ نہیں کھاتا۔ (۳)جو کھانا کھاتا ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کھانے کا محتاج ہے اور اللہ کھانے کا محتاج نہیں ہے۔ (۴) حقیقی الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو کسی کا دست نگر نہ ہو۔ مشرکوں نے جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ ان کو رزق دینے کی بجائے الٹا ان سے رزق لینے کے محتاج ہیں۔ کوئی فرعون خدائی ٹھاٹھ جما ہی نہیں سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ نہ کسی صاحب قبر کی شان معبودیت قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کے عقیدت مند اسکا مقبرہ تیار نہ کریں۔ دیوتا کا دربار خداوندی اس وقت تک نہیں سج سکتا جب تک اسکے پجاری اس کا مجسمہ بناکر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں گویا یہ سارے مصنوعی الٰہ اپنے بندوں کے محتاج ہوتے ہیں بس اللہ تعالیٰ کی ذات ہی وہ ذات ہے جو کسی کا محتاج نہیں بلکہ وہ اپنے بل بوتے پر قائم ہے اور سب اس کے محتاج ہیں لہٰذا سب کو اُسی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔ اور شرک کرنیوالوں میں شامل نہ ہوناچاہیے۔