قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَّا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ
اس پر موسیٰ نے کہا اللہ فرماتے ہے۔ ایسی گائے ہو جو نہ تو کبھی ہل میں جوتی گئی ہو نہ کبھی آب پاشی کے لیے کام میں لائی گئی ہو۔ پوری طرح صحیح سالم، داغ دھبے سے پاک و صاف۔ (جب معاملہ اس حد تک پہنچ گیا تو پھر عاجز ہو کر بولے۔ ہاں اب تم نے ٹھیک ٹھیک بات بتلا دی۔ چنانچہ جاور ذبح کیا گیا۔ اگرچہ ایسا کرنے پر وہ (دل سے) آمادہ نہ تھے
چونکہ ان لوگوں کو گؤ پرستی کا مرض لگ چکا تھا۔ اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اس طرح ہوسکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانتے تو اس سے پہلے وہ جسے بت (یعنی بچھڑا) سمجھتے رہے ہیں اُسے اپنے ہاتھ سے توڑیں بلاشبہ یہ امتحان بہت کڑا تھا ۔ دلوں میں ایمان پوری طرح اترا ہوا نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پوچھتے رہے حالانکہ اگر وہ صرف اللہ کا حکم مان لیتے تو کوئی سی گائے بھی ذبح کر سکتے تھے۔ آخر کار اسی خاص قسم کی گائے جس کا رنگ سنہرا ہو۔ اور جس کی وہ اس زمانے میں پرستش کرتے تھے اس کی نشاندہی کردی گئی کہ اس قسم کی گائے ذبح کرو ۔لیکن بعض روایات میں ہے کہ انھوں نے اس گائے کے وزن کے برابر سونا چاندی دیکر اسے خریدا اور ذبح کیا۔