ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اس طریقے میں اس بات کی زیادہ امید ہے کہ لوگ (شروع ہی میں) ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا اس بات سے ڈریں کہ ( جھوٹی گواہی کی صورت میں) ان کی قسموں کے بعد لوٹا کر دوسری قسمیں لی جائیں گی (جو ہماری تردید کردیں گے) اور اللہ سے ڈرو، اور (جو کچھ اس کی طرف سے کہا گیا ہے اسے قبول کرنے کی نیت سے) سنو۔ اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
یہ اس فائدے کا ذکر ہے جو اس حکم میں چھپا ہے جس کا ذکر یہاں کیاگیا ہے وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اوصیاء صحیح صحیح گواہی دیں گے کیونکہ انھیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت کی اور جھوٹی گواہی دی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کارروائیاں خود ہم پر اُلٹ سکتی ہیں جیسا کہ بدیل کے واقعہ میں ہوا۔