يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (٦٩) (البتہ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔
تم سوال نہ کرو: رسول اللہ سے زائد سوال کرنے سے روکا گیا ہوسکتا ہے ایسے فرائض عائد ہوجائیں جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کیا ہر سال حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوجاتا۔ (مسند احمد: ۱/۲۱۱۳، ح: ۹۰۸، مسلم: ۱۳۳۷) خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرماتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا وہ مجرم ہے جس کے سوال کرنے سے کوئی چیز حرام کردی گئی حالانکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔ (بخاری: ۷۲۸۹) اگر نزول قرآن کے وقت سوال کرو تو ظاہر کردی جائیں گی اور اللہ درگزر کرنے والا اور حلیم ہے۔