قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(اے رسول ! لوگوں سے) کہہ دو کہ ناپاک اور پاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں، چاہے تمہیں ناپاک چیزوں کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ (٦٨) لہذا اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
خبیث اور طیب برابر نہیں ہوسکتے: اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً (۱)غلاظت کے ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدر وقیمت رکھتا ہے۔ (۲) حلال سے کمائے ہوئے پانچ روپے حرام سے کمائے ہوئے سو روپے سے زیادہ قدروقیمت رکھتے ہیں اللہ کی نظر میں۔ (۳)بدکار اور نافرمان آدمیوں کے لشکر کے مقابلہ میں اللہ کے نزدیک گنتی کے چند فرمانبردار اور متقی لوگ زیادہ محبوب ہیں۔ (۴) کوئلے کی پوری کان کے مقابلہ میں چند ہیرے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے پاک اور ناپاک برابر نہیں ہوسکتے۔ اگرچہ وہ تعداد میں کتنے ہی زیادہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو حلال کمائی سے ایک کھجور صدقہ کرے تو اللہ اسے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر اس کو کھلا پلا کر بڑا کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ اُحد پہاڑ تک ہوجاتا ہے۔ (بخاری: ۱۴۱۰) پھر اللہ سے ڈرو کیونکہ یہی کامیابی کا ذریعہ ہے انسان دنیاوی اندیشوں میں جیتا ہے اور اللہ آخرت کے اندیشے میں جینا سکھاتا ہے۔