سورة البقرة - آیت 69

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(لیکن انہوں نے پہلے سوال کا جواب پا کر ایک دوسرا سوال کھڑا کردیا) کہنے لگے اپنے پروردگار سے درخواست کرو۔ وہ یہ بھی بتلا دے کہ جانور کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ موسیٰ نے کہا حکم الٰہی یہہ ہے کہ اس کا رنگ پیلا ہوخوب گہرا پیلا۔ ایسا کہ دیکھنے والوں کا جی دیکھ کر خوش ہوجائے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جب انسان آخرت کو بھول جاتا ہے تو تا ویلیں گھڑنے لگتا ہے۔ تو دراصل یہ اپنے آپ کو فریب دینے کا طریقہ ہے لیكن اس سے دل سخت ہوجاتا ہے۔ اور وہ سرکشی کرنے لگتا اور چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس حکم سے جان چھوٹ جائے۔ آخرت کو بھلانے سے بے حسی پیدا ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے حسی کا علاج بتایا ہے۔ سنن ابی داؤد میں روایت ہے كہ ایك دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ بیٹھے چاند دیكھ رہے تھے کہ آپ نے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا عنقریب آپ اللہ کو اسی طرح دیکھو گے ایک کام ضرور کرلیا کرو۔ صبح اور عصر کی نماز وقت کی پابندی سے پڑھ لیا کرو۔(ابوداؤد: ۴۷۳۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے گروہ انصار کیا اللہ نے تم پر کرم نہیں کیا كہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کا مدد گار بنایا۔ انصار نے جواب دیا کہ بیشک یہ اللہ کے احسان ہیں اور اللہ کے رسول کے بھی ہم پر بہت سے احسان ہیں۔ آپ نے فرمایا آپ اپنے احسانات بھی بتائیں انصار نے کہا ہم جواب نہیں دے سکتے۔ آپ کی وجہ سے ہم کفر سے نکل کر ایمان لے آئے آپ کی وجہ سے ہماری نجات ہوگئی۔گمراہی ہدایت میں بدل گئی۔(بخاری: ۴۳۳۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو خصلتوں پر خوف ہے: (۱) خواہش کی طابع داری۔ (۲) لمبی عمر مانگنا۔ (۳)کچھ لوگ دنیادار ہوتے ہیں تم دیندار بن جاؤ دنیا تو منہ موڑ لیتی ہے دین میں بھلائی ہے۔ (۴) آخرت سیدھ باندھے چلی آرہی ہے جیسے برف پگھلتی ہے ایسے ہی انسانی زندگی ختم ہورہی ہے۔ امام راضی کا قول: لوگو اس کے حال پر رحم کرو جس کا سرمایہ پگھلتا جارہا ہے۔ اپنے رب کی پاکی بیان کرو۔ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز فجر اور عصر كے وقت پر ۔(لیکچر سے ماخوذ)