يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو ! اللہ نے تمہارے لیے جو پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں ان کو حرام قرار دنہ دو، اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقین جانو کہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (٥٨)۔
شان نزول: اے ایمان والو! پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ ٹھہراؤ۔ جو اللہ نے آپکے اوپر حلال کی ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے تھے ہماری بیویاں ہمارے ساتھ نہ ہوتی تھیں تو ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی نہ کرلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں روک دیا اور کہا کسی کپڑے یا اور چیز کے عوض تم عورتوں سے نکاح کرلو۔ اس پر یہ آیت پڑھی گئی۔ (بخاری: ۵۰۷) ایمان والوں سے کہا جارہا ہے کہ آپ لوگوں نے تو پہلے ہی مان لیا ہے ایمان لے آئے ہو، دین کا تقاضا کہ حرام و حلال کا اختیار تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اپنی مرضی سے حلال چیزوں کو حرام نہ کرو۔ شرعی لحاظ سے تمام اشیاء انسان کے لیے حلال ہیں ماسوائے ان چیزوں کے جن کے لیے شریعت نے وضاحت کردی ہے۔ جیسے ایک روایت میں آتا ہے کہ: ’’بعض صحابہ نے عبادت کی غرض سے بعض چیزیں اپنے اوپر حرام کرلیں۔ (۱) میں ساری عمر شادی نہیں کرونگا۔ (۲)میں ساری عمر روزے رکھونگا۔ (۳) میں ساری رات عبادت کرونگا سوؤں گا نہیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کا علم ہوا تو آپ نے ان صحابہ کو سخت تنبیہ کی اور فرمایا ’’میں اللہ کا رسول ہوں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور میں نے نکاح کیے ہیں۔ میں رات کو سوتا بھی ہوں اورقیام بھی کرتا ہوں اور میں (نفلی روزے) رکھتا ہوں اور چھوڑ تا بھی ہوں یہی میرا طریقہ ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (بخاری: ۵۰۶۳، مسلم: ۱۴۰۱) رہبانیت کا نظریہ بھی سنت نبوی کے سراسر خلاف ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت رسول اللہ نے فرمایا: ’’اپنی طرف سے دین میں سختی کرنیوالے ہلاک ہوگئے۔‘‘ (ابن کثیر: ۲/۱۶۱) اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کرلینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں چاہے ضروریات زندگی ہوں، لباس ہو، جائز خواہشات ہوں، اس کے علاوہ انسان اپنی کمائی کو حرام بنالیتا ہے یعنی چوری کرکے ڈاکا ڈال کر، خیانت کرکے۔سود اور دیگر ذرائع سے مال حاصل کرکے۔ یہود کی اکثریت انہی امراض میں مبتلا تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’حد سے نہ بڑھو کیونکہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘