كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
وہ جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔
بُرائی سے منع نہ کرنے والوں پر لعنت: کسی معاشرہ میں کوئی برائی یوں رواج پاتی ہے کہ ابتداء میں چند لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں اگر فوراً سختی سے محاسبہ کیا جائے تو برائی رک جاتی ہے لیکن اگر اس سے آنکھیں بند کرلی جائیں تو بدی پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے پھر نہ بدی کرنے والے بچتے ہیں نہ بدی سے اجتناب کرنیوالے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بدی کرنیوالے اور بدی سے نہ روکنے والے دونوں برابر کے مجرم ہوتے ہیں، اور اللہ کی لعنت یا عذاب الٰہی کا اثر دونوں پر یکساں ہوتا ہے۔ بدی سے نہ روکنے والوں کی مثال رسول اللہ نے بیان فرمائی ہے کہ: ’’جیسے کچھ لوگوں نے جہاز میں سوار ہونے کے لیے قرعہ ڈالا۔ قرعہ کی رو سے کچھ لوگ نچلی منزل میں بیٹھے اور کچھ اوپر والی منزل میں ۔ نچلی منزل والوں کو پانی اوپر والی منزل سے حاصل کرنا پڑتا تھا جس سے اوپر والی منزل والے تنگ پڑتے تھے۔ اب نچلی منزل والوں نے اسکا یہ حل سوچا کہ کیوں نہ جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کرکے پانی نیچے سمندر سے حاصل کرلیا جائے اب اگر اوپر کی منزل والے اور نچلی منزل والے دونوں مل کر ان سوراخ کرنیوالوں کا ہاتھ نہ روکیں گے تو نچلے اور اوپر والے سب غرق ہوجائیں گے۔ (بخاری: ۲۶۸۶) اس حدیث کی رو سے بدی سے نہ روکنے والوں کا جرم بدی کرنیوالوں سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔