قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِن قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
(اور ان سے یہ بھی کہو کہ) اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو (٥٣) اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیا، اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔
یعنی اتباع حق میں حد سے تجاوز نہ کرو۔ اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے ان کو منصب نبوت سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز مت کرو، جیسے مسیح علیہ السلام کے بارے میں تم نے کہا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمراہی کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت و محبت ہوتی ہے وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ اگر وہ امام اور قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے بدقسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ انھوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتیٰ کہ ان کی طرف سے منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔ عقیدے میں غلو ہو تو بندے کو خدا کے مقام پر فائز کردیاجاتا ہے۔