قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ وَاللَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
(اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : کیا تم اللہ کے سوا یسی مخلوق کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کوئی نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتی ہے اور نہ فائدہ پہنچانے کی (٥٢) جبکہ اللہ ہر بات کو سننے والا، ہر چیز کو جاننے والا ہے ؟
اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام اور انکی والدہ کی الوہیت کی نفی کی گئی ہے یعنی وہ دونوں بھی اپنے نفع و نقصان کااختیار نہیں رکھتے، یہود نے انھیں ایذائیں پہنچائیں، حضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی حضرت عیسیٰ کو سازباز کرکے سولی پر چڑھا دیا لیکن یہ دونوں نہ اپنی مدافعت کر سکے نہ یہود کا کچھ بگاڑ سکے ۔ الوہیت کے مقام پر وہ فائز ہوسکتا ہے جو سب کچھ سنتا ہے، جانتا ہے، علم رکھتا ہے، نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارے۔ اللہ ہی سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔