قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ
تم (ان سے) کہو کہ : اے اہل کتاب ! تمہیں اس کے سوا ہماری کون سی بات بری لگتی ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کلام ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو پہلے اتارا گیا تھا اس پر ایمان لے آئے ہیں، جبکہ تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں؟
چاہیے تو تھا کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں سے محبت رکھتے: یہود کو مسلمانوں سے دراصل یہ بیر تھا کہ نبی آخرالزماں ان یہود میں کیوں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ بات وہ کھل کر تو کہہ نہیں سکتے تھے ۔ اس کی بجائے اپنے دل کی جلن اور بھڑاس نکالنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوطرح طرح سے تکلیف اور دکھ پہنچاتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر جواب دیا کہ نبوت کے اجارہ دار تم نہیں کہ جتنی بھی بد عہدیاں کرتے رہو نبوت تمہارے ہی خاندان میں رہے یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے مناسب سمجھتا ہے دے دیتا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتے ہیں کہ ان سے بھلا پوچھو تو کہ آخر ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ہم تورات پر بھی ایمان لاتے ہیں انجیل پر بھی اور تمام انبیاء پر بھی ایمان لاتے ہیں اس لحاظ سے چاہیے تو یہ تھا کہ ہم تم سے عداوت رکھتے کیونکہ نہ تم قرآن پر ایمان لاتے ہو اور نہ مجھ پر لیکن اس کی بجائے تو تم مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہو حالانکہ تم قرآن پر ایمان نہیں رکھتے۔