وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ
اور جب تم نماز کے لیے (لوگوں کو) پکارتے ہو تو وہ اس (پکار) کو مذاق اور کھیل کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ سب (حرکتیں) اس وجہ سے ہیں کہ ان لوگوں کو عقل نہیں ہے۔
اذان کیا ہے: ابو ہریرہ نے فرمایا ! جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کر بھاگ جاتا ہے جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر آجاتا ہے، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے جب تکبیر ختم ہوجاتی ہے تو پھر آکر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ (بخاری: ۶۰۸) شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لیے وہ اسکا مذاق اڑاتے ہیں، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کی طرح دین کا ماخذ ہے اور حجت کیونکہ قرآن میں ندا کا تو ذکر ہے لیکن یہ ندا کس طرح دی جائے گی، اس کے الفاظ کیا ہونگے یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں جو دین کا ایک ماخذ اور دلیل ہیں۔ صحیح روایات میں یہ واقعہ منقول ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آرہے تھے تو راستے میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی۔ چند نوجوانوں نے اذان کے کلمات کی ہنسی اڑائی اور ان کی نقل اُتارنے لگے ان نوجوانوں میں ابومحذورہ بھی شامل تھے آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور اسلام کی دعوت دی ۔ اللہ نے ان کے دل میں اسلام ڈال دیا۔ خوش آواز تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مکہ کا موذّن مقرر فرمادیا اس طرح اللہ کی قدرت سے نقل اصل بن گئی۔ (مسلم: ۳۸۹، ابن ماجہ: ۷۰۸، مسند احمد: ۳/۴۰۹)