أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
بھلا کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ یقین رکھتے ہوں ان کے لیے اللہ سے اچھا فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟
جاہلیت کا لفظ اسلام کے مقابلہ میں بولاجاتا ہے، اسلام سراسر روشنی ہے جبکہ جاہلیت اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ اسلام ایسی روشنی اور ایسا علم ہے جو دنیوی زندگی میں رہنمائی کرتا ہے اور اخروی زندگی میں نجات کی راہیں بھی دکھاتا ہے۔ حدیث: تیرے اس فیصلے سے جو اللہ نے تجھ پر نازل کیا ہے یہ اعراض کرتے ہیں اور پیٹھ پھیرتے ہیں اور جاہلیت کے طریقوں کے متلاشی ہیں۔ (فتح القدیر: ۲/۲۱۰) اسلام سے پہلے کے دور کو دور ِ جاہلیت کہاجاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی ہو اور جو ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ہو۔ (بخاری: ۶۸۸۲، المعجم الکبیر للطبرانی: ۱/ ۳۰۸، ح: ۱۰۷) دور جاہلیت سے مراد ہر وہ فیصلہ جو بے انصافی پر مبنی ہو۔‘‘ آج کی نئی روشنی اسی پرانے دور جاہلیت سے ملتی جلتی ہے جس قسم کی فحاشی و بدکرداری اور بے حیائی اُس دور میں پائی جاتی تھی آج بھی پائی جاتی ہے۔