فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آخر کار اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا، چنانچہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا، اور نامرادوں میں شامل ہوگیا۔
قابیل نے بھائی کی باتیں سن کر کچھ عرصہ اس پر غور کیا۔ لیکن نفس اور شیطان نے اسکو اس بات پر آمادہ کرہی لیا کہ بھائی کو قتل کیے بغیر میرا نکاح اس لڑکی سے نہیں ہوسکتا چنانچہ قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو قتل بھی ظلم سے کیا جاتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا۔‘‘ (بخاری: ۳۳۳۵) امام ابن کثیر فرماتے ہیں ’’ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پر دے دی گئی تھی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ظلم و زیادتی اور قطع رحمی کہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے کرنے والوں کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے۔ تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ ذخیرہ ہوگی جو انھیں وہاں بھگتنی ہوگی اور قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے۔ (ابن کثیر: ۲/۱۰۵) جب قابیل نے ہابیل کو مار ڈالا تو اس پر ہر طرف سے لعنت و پھٹکار پڑنے لگی کہ بے قصور اور شفیق بھائی کو مار ڈالا۔