إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ
میں تو یہ چاہتا ہوں کہ انجام کار تم اپنے اور میرے دونوں کے گناہ میں پکڑے جاؤ، (٢٣) اور دوزخیوں میں شامل ہو۔ اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔
ناحق قتل کرنے والے کی سزا صرف یہی نہیں ہوتی کہ اُسے اس جرم کے عوض جہنم میں ڈال دیا جائے بلکہ اس کے ساتھ مقتول کے گناہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے سیدنا ابوبکرہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک شخص نے رسول اللہ سے پوچھا اگر مجھے دو لشکروں یا دو صفوں میں سے کسی ایک صف میں زبردستی لایا جائے پھر کسی شخص کی تلوار میری گردن اڑا دے یا کسی کا تیر مجھے مار ڈالے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قاتل اپنے اور تیرے گناہ سمیٹ کر اللہ کے پاس آئے گا اور وہ جہنمی ہے اور تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (مسلم: ۲۴۴۹) نیز کئی احادیث میں یہ بات صراحت سے مذکور ہے۔ کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہونگی تو مظلوم کی بُرائیاں اُس ظالم پر ڈالدی جائیں گی۔