قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ
اللہ نے کہا : اچھا تو وہ سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی گئی ہے، یہ (اس دوران) زمین میں بھٹکتے پھریں گے (٢١) تو (اے موسی) اب تم بھی ان نافرمان لوگوں پر ترس مت کھانا۔
اللہ تعالیٰ نے ایسی بزدل اور نافرمان قوم سے فلسطین کی فتح و نصرت کا جو وعدہ کیا تھا وہ چالیس سال تک کے لیے موخر کردیا۔ یہ چالیں سال اس بزدل اور پست ہمت قوم کے اخلاقی اور روحانی امراض کا علاج تھا، کہ وہ اتنی مدت جنگل میں ادھر اُدھر دھکے کھاتی پھرے تاکہ زندگی گزارنے کی صعوبتیں برداشت کرنے کی عادی ہوجائے۔ اس عرصہ میں اس قوم کی جوان اور بزدل نسل مر کھپ جائے اور جو نئی نسل پیدا ہو وہ آزاد فضاؤں میں پرورش پائے نرمی گرمی برداشت کرنے کی عادی اور ہمت والی بن جائے، پھر انھیں جہاد کی ترغیب دی جائے تو وہ اٹھ کھڑے ہونگے۔ نافرمان لوگوں کی حالت پر غم نہ کرنا: پیغمبر دعوت و تبلیغ کے باوجود جب دیکھتا ہے کہ میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں، جس میں اس کے لیے دین و دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اُسے دلی دکھ ہوتا ہے ۔ یہی حال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہوتا تھا۔ اس آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطا ب کرکے کہا جارہا ہے۔ ’’جب تم نے فریضۂ تبلیغ ادا کردیااور پیغام الٰہی پہنچا دیا تو اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں، اب تم عنداللہ بریٔ الذمہ ہو۔