يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُم بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے پیغمبر ایسے وقت دین کی وضاحت کرنے آئے ہیں جب پیغمبروں کی آمد رکی ہوئی تھی، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی (جنت کی) خوشخبری دینے والا آیا، نہ کوئی (جہنم سے) ڈرانے والا۔ لو اب تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آگیا ہے۔ اور اللہ ہر بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔
اہل کتاب کو نبی آخرالزماں کا انتظار: بنی اسرائیل میں ایک ہی زمانہ میں متعدد انبیاء مبعوث ہوتے رہے، دینی قیادت اور دنیاوی قیادت بھی انہی کے پاس تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبوت کا سلسلہ کم و بیش چھ سو سال تک بند رہا۔ اس کے بعد نبی آخرالزماں مبعوث ہوئے یہودی اور عیسائی انتظار میں تھے کہ جب نبی آخرالزماں آئے گا تو ہم ان کے ساتھ مل کر مشرکین کو شکست دیں گے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں تشریف لے آئے۔ یہود نے ان کو پہچان لینے کے بعد صرف اس بنا پر انکار کردیا کہ آپ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ انہی یہود کو اللہ تعالیٰ مخاطب کرکے فرمارہے ہیں کہ جس بشیر و نذیر کا تمہیں انتظار تھا وہ آچکا، لہٰذا اگر اب تم نے انکار کیا تو خوب جان لو کہ اللہ تمہیں اس جرم کفر کی سزا دینے پر قادر ہے۔