يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دییے (١٢) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
شان نزول: ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ ایک دیت کے بارے میں نکلے، یہودیوں نے آپ کو بٹھایا اور سوچا کہ اس سے بہتر موقعہ کوئی نہیں ہوسکتا اور ایک پتھر پھینک کر آپ کو ہلاک کرنا چاہا۔ تو جبرائیل امین نے آپ کو وہاں سے اٹھا لیا تھا اور پتھر ان کے ہاتھ میں ہی رہ گیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسلم: ۱۸۰۸) پہلا احسان اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مسلمانوں کو اسلام کی توفیق بخشی۔ جس کی بدولت قبائلی لڑائیوں کا خاتمہ ہوا اور آپس میں بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے لگے دوسرا احسان یہ کہ کا فر حدیبیہ کے مقام پر آپ کو صفحہ ہستی سے ناپید کر دینا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یاد دلایا کہ میں تمہاری حفاظت کر سکتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو تسلی دی کہ دیکھو میں انھیں روک سکتا ہوں، آپ اطمینان رکھورواداری سے کام لو، معاف کردو، عفو و درگزر سے کام لو اور اللہ سے ڈر جاؤ، اور اللہ پر ہی مومنوں کو توکل کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ قوت رکھتا ہے مومن اپنے سارے معاملات اللہ پر چھوڑ دے۔