يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں تک (دھو لیا کرو) اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارے جسم کو (غسل کے ذریعے) خوب اچھی طرح پاک کرو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے جسمانی ملاپ کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو (١١) اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا اس (مٹی) سے مسح کرلو۔ اللہ تم پر کوئی تنگی مسلط کرنا نہیں چاہتا، لیکن یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے، اور یہ کہ تم پر اپنی نعمت تمام کردے، تاکہ تم شکر گزار بنو۔
حلت و حُرمت کے احکام کے بعد اب جسم کی طہارت کے احکام بیان ہورہے ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لے آئے ہو: اہم حکم دینا ہو تو ایمان والوں کو پکارا جاتا ہے جن لوگوں نے اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آخرت کو مان لیا تو اب یاد رکھیں کہ ایمان لانے کے بعد نماز قائم کرنے کے لیے پاکیزگی اس کی شرط ہے، ناپاک کو پانی نہ ملنے کی صورت میں مٹی سے تیمم کا طریقہ بتایا ہے۔ اللہ پاک کرنا چاہتا ہے تاکہ تم شکر گزار ہوجاؤ بدن کی پاکیزگی غسل کے ساتھ اور روح کی پاکیزگی الصلوٰۃ کے ساتھ ہوتی ہے اسلام طہارت و پاکیزگی کا دین ہے اس آیت سے پورا معاشرہ پاک کردیا۔ آغاز ایمان سے ہوتا ہے ارادے سے انسان نماز کے لیے اللہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے چہرے دھولو۔ ہاتھوں کو کہنیوں تک، پاؤں ٹخنوں تک، سر کا مسح کرلو۔ ان سب معاہدات سے ایمان مکمل ہوتا ہے۔ نماز: اس میں انسان اللہ سے ملاقات کرتا ہے اس سے راز و نیاز اور دُعا کرتا ہے۔ نماز دل کی تازگی، آنکھوں کا سرور ہے ۔ اللہ تعالیٰ ساری رکاوٹیں دور کردیتا ہے جو اللہ سے ملاقات میں حائل ہوجاتی ہیں، سفر میں نماز مختصر کردی، خوف کی حالت میں اسلحہ اٹھا کر، پانی نہ ملے تیمم کرکے مجبوریوں مشکلات میں، بیٹھ کر، لیٹ کر، پہلو کے بل حکم دیتا ہے۔ فرض نماز ہر حال میں فرض ہے اور ہر تنگی میں اس کی ادائیگی میں سہولت دی گئی ہے نماز اخلاقی تربیت اور اللہ کا خوشگوار سایہ ہے۔ حدیث کی روشنی میں: ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب مسلمان یا مومن وضو کرتا ہے پانی کے آخری قطرے کے ساتھ تمام گناہ ختم ہوجاتے ہیں جو اس نے آنکھوں سے کیے ہوں۔ ہاتھوں سے كیے، پاؤں سے چل کر کئے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور وہ پاک ہوجاتا ہے جب وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے منہ سے گناہ خارج ہوجاتے ہیں۔ ناک، کان، سر کا مسح کرنے سے کانوں کے راستے باہر۔ پاؤں دھونے سے ناخنوں کے راستے گناہ خارج ہوجاتے ہیں۔ اور جب مسجد میں جاکر نماز ادا کرتا ہے تو زائد اجر ملتا ہے۔ (مسلم: ۲۴۴) وضو کا طریقہ: سب سے پہلے ہاتھوں کو كلائیوں تک دھونا، پھر کلی کرنا، ناک میں پانی چڑھانا اور ناک جھاڑنا، وضو سے پہلے یا ہاتھ دھونے کے بعد مسواک کرنا، ہاتھ اور پاؤں دھوتے وقت انگلیوں میں خلال کرنا۔ منہ دھوتے وقت داڑھی اگر لمبی ہو تو انگلیوں سے بالوں میں خلال کرنا اور ہلکی ہو تو جڑوں تک دھونا، سر کے مسح کو دونوں ہاتھوں سے سر کے اگلے حصے سے شروع کرکے گدی تک لے جائے پھر اسی طرح واپس لے آئے۔ سر کے مسح کے ساتھ ہی دونوں کانوں کا مسح کرنا مسنون ہے۔ جن اعضاء کو دھونے کا ذکر قرآن میں ہے انھیں ایک بار دھونے سے بھی فرض کی ادائیگی ہوجاتی ہے سنت یہ ہے کہ انھیں دو، دو، تین، تین بار دھویا جائے تین بار دھونے سے بھی فرض کی ادائیگی ہوجاتی ہے۔تین بار دھونا افضل ہے۔ تین سے زائد بار دھونا مکروہ ہے ہر نماز کے لیے نئے سرے سے وضو کرنا واجب نہیں بلکہ ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھی جاسکتی ہیں بشرطیکہ وضو ٹوٹ نہ جائے۔ سفر میں ایک وضو کرکے موزے پہننے کے بعد ان پر تین دن تک مسح کیا جاسکتا ہے۔ اور حضر میں اس کی مدت صرف ایک دن ہے اگر کوئی عضو زخمی ہو جسے دھونے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس پر پٹی باندھ کر اس پر مسح کیا جاسکتا ہے۔ جنابت کی حالت میں: جنابت سے مراد ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے اور اسی حکم میں حیض و نفاس بھی داخل ہے جب حیض کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی کے لیے غسل کرنا ضروری ہے البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے ۔ اتمام نعمت سے مراد: نفس کی پاکیزگی کے ساتھ جسم کی پاکیزگی بھی اتنی ہی ضروری ہے اس لیے یہ احکام دے کر اللہ نے بہت بڑا کرم کیا ہے۔رسول اللہ نے فرمایا کہ جسمانی صفائی ایمان کا حصہ یا آدھا ایمان ہے۔ (مسلم: ۲۲۳) شان نزول: صحیح بخاری میں ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں رکنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لیے لوگوں کے لیے پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہ ہوا اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے آیت سن کر کہا ’’اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لیے برکتیں نازل فرمائیں ہیں اور یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں تم لوگوں کے لیے سراپا برکت ہو ۔‘‘ (بخاری: ۳۳۴) تیمم کے لیے مٹی کا پاک ہونا ضروری ہے جب پانی نہ ملے یا بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو تیمم کرلیا کرو سفر پر ہوں یا عورتوں کو چھوا ہو تو ان صورتوں میں پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ چاہے دس سال پانی نہ ملے۔ مٹی سے تیمم کے لیے نیت کرنا ضروری ہے۔ ایک بار مٹی پر دونوں ہاتھوں کو مارناپھر جھاڑ کر چہرے پر ہاتھ پھیرنا اور ہاتھوں کا مسح کرنا۔ تیمم سے کونسے کام کیے جاسکتے ہیں: (۱)نماز پڑھ سکتا ہے۔ (۲) طواف کرسکتا ہے۔ (۳) قرآن پڑھ سکتا ہے۔ (۴)مسجد میں ٹھہر سکتا ہے۔ (۵) احرام باندھ سکتا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری غسل کی ضرورت محسوس ہوئی، سفر میں تھے پانی نہیں تھا مٹی میں لوٹ پوٹ ہوئے رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ’’تمہارے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے اور پھر ہاتھوں اور چہرے کا مسح کرتے۔ (بخاری: ۳۴۷) تیمم میں حکمت کیا ہے: اللہ تعالیٰ تنگی نہیں چاہتا، ناروا پابندیوں اور قید کو ختم کیا ہے۔ یہودیوں میں ایسا کوئی تصور نہیں تھا تیمم بطور انعام عطا فرمایا۔ غسل کا راستہ شکر گزاری کا ذریعہ ہے اپنی نعمت پوری کردی۔ پاکیزگی بطور انعام یہ اللہ کی نرمی اور مہربانی ہے۔