يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ : تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھا لیا ہو، وہ جس جانور کو (شکار کر کے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھا سکتے ہو، اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، (٨) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے
اس آیت میں کھانے پینے کی اشیاء کی حلت و مرمت کے متعلق ایک عظیم الشان اصول دیا گیا ہے ۔ کھانے پینے کی تمام اشیاء دو شرطوں کے ساتھ تمہارے لیے حلال ہیں ۔ (۱) وہ چیز پاکیزہ اور صاف ستھری ہو، گندی، باسی، سڑی ہوئی، اور بدبو دار نہ ہو۔ (۲) شریعت میں یہ صراحت نہ ہو کہ وہ حرام ہے اس طرح حرام اشیاء کا دائرہ بہت محدود ہوجاتا ہے اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے اس آیت کے نزول سے پہلے یہی سمجھا جاتا تھا کہ صرف وہی چیز حلال ہوسکتی ہے جس کے متعلق شریعت میں واضح ثبوت موجود ہوں۔ مسلمانوں کے یہی سوال کرنے پر اللہ تعالیٰ نے سابقہ نظریہ کو بدل کر اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع کرکے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ شکار کے متعلق احکام: شکاری جانوروں میں پرندے بھی شامل ہیں جیسے باز اور شکرا وغیرہ سارے درندے مثلاً کتا، چیتا،باز وغیرہ یہ سدھائے ہوئے ہوتے ہیں وہ عام درندوں کی طرح شکار کو پھاڑ کر نہیں کھاتے بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ کر رکھتے ہیں اگر وہ خود پھاڑ کھائیں تو پھر تمہارے لیے وہ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر تم جانوروں کو سدھاتے ہو تو یہ اللہ کی حکمت اور اللہ کا دیا ہوا علم ہے انسان کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ جانوروں کو خود سے سدھا سکے۔ حدیث کی روشنی میں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو چھوڑو تو بسم اللہ پڑھ لو ۔ اور اگر شکار غائب ہوجائے تو جب ملے اسے کھا سکتے ہو بشرطیکہ سڑ نہ جائے۔ (مسلم: ۴ ،۶/ ۱۹۲۹ ) (۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کردیا ہے۔ لہٰذا جب تم کسی جانور کو مارو یا ذبح کرو تو احسن طریقہ سے مارو یعنی اپنی چھری وغیرہ کو خوب تیزکرلوتاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔‘‘ (مسلم: ۱۹۵۵)