رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
یہ تمام رسول (خدا پرستی اور نیک عملی کے نتائج کی) خوش خبری دینے والے اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کرنے والے تھے (اور اس لیے بھیجے گئے تھے) کہ ان کے آنے (اور نیک و بد بتلانے) کے بعد لوگوں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے جو وہ خدا کے حضور پیش کرسکیں (یعنی یہ عذر کرسکیں کہ ہمیں راہ حق کسی نے نہیں دکھلائی تھی) اور خدا (اپنے کاموں میں) سب پر غالب اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ نے فطرتاً انسان کو اتنی عقل دی ہے کہ وہ اللہ اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرسکے۔ انسان اتنا تو جانتا ہے کہ کوئی چیز خالق کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی اور اگر کوئی چیز مدت دراز تک ایک مربوط نظام کے تحت حرکت کررہی ہے تو لازماً اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس نظام کی نگہداشت کرنے والی بھی کوئی ہستی ضرور موجود ہے۔ ورنہ کوئی بھی چیز کچھ مدت بعد بگڑنا شروع ہوجاتی ہے اور اگر اسے بروقت درست نہ کیا جائے تو بالآخر تباہ ہوجاتی ہے لیکن چونکہ سب انسان ایک جیسی عقل کے مالک نہیں ہوتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول بھیج کر انسان کو کائنات کے تمام حقائق سے مطلع فرمادیا۔ اور سب رسولوں کا ایک ہی کام تھا اور وہ یہ کہ لوگ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیم پر ایمان لائیں اور اپنے رویہ کو اس کے مطابق درست کرلیں، انھیں فلاح و سعادت کی خوشخبری سنادیں، اور جو فکر و عمل کی غلط راہوں پر چلتے ہیں ان کو اس غلط روی کے بُرے انجام سے آگاہ کردیں، اللہ نے حجت کو تمام کردیا، تاکہ انسان یہ نہ کہہ سکیں کہ انھیں کوئی ہدایت دینے والا نہیں آیا، اور اللہ غالب بھی ہے اور قدرت بھی رکھتا ہے۔ پیغمبر اپنے پیچھے کتابیں چھوڑ گئے جن میں سے کوئی نہ کوئی کتاب انسانوں کی راہنمائی کے لیے ہر زمانہ میں موجود رہی ہے اور جن تک اللہ کا پیغام پہنچ چکا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جن تک ابھی یہ پیغام نہیں پہنچا کیونکہ ایسے علماء ہی حقیقتاً انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔