وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ وَقُلْنَا لَهُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُلْنَا لَهُمْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور پھر (دیکھو احکام حق پر) عہد لینے کے لیے ہم نے ان کے سروں پر (کوہ) طور بلند کردیا تاھ۔ (اور انہوں نے اتباع حق کا قول و قرار کیا تھا) اس کے بعد ہم نے انہیں حکم دیا کہ شہر کے دروازے میں (خدا کے آگے) جھکے ہوئے داخل ہو (اور فتح و کامیابی کے بعد ظلم و شرارت نہ کرو) اور ہم نے حکم دیا کہ سب کے دن (کا احترام کرو) اور اس دن (حکم شریعت سے) تجاوز نہ کرجاؤ۔ ہم نے ان سے ان تمام باتوں پر پکا عہد و میثاق لے لیا تھا
اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی تختیاں نازل ہوئیں تو تم ان پر کونسا ایمان لائے تھے جو اب اس نبی سے آسمان سے نازل شدہ تحریر کا مطالبہ کررہے ہو۔ قوم موسیٰ کی حالت: (۱)بیت المقدس میں عاجزی کے ساتھ سر جھکائے ہوئے داخل ہونا ۔ (۲) ہفتے کے دن کی حرمت کا خیال رکھنا۔ (۳) تورات پر عمل کرنا۔ معاہدہ جہاد، دین کے غلبہ کا معاہدہ کیا کہ یہ سب باتیں تم تب مانے جب پہاڑ کو سر پر اٹھا کھڑا کیاتھا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تھے کہ مصرسے نکال کر ان کو ایسا مقام فراہم کرے، جہاں دین کا غلبہ ہو، جہاں اللہ کی شریعت قائم ہوسکے، یہ لوگ ایمان کو مضبوط کرسکیں، ان کی ذاتی تربیت ہوسکے، لیکن جب یہودی صحرائے سینا میں داخل ہوئے تو جہاد سے انکار کردیااور حضرت موسیٰ سے کہا کہ جاؤ تم اور تمہارارب لڑو ہم ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ نے بھی پھر انھیں چالیس برس تک اس صحراء میں بھٹکنے دیا۔ پھر جب نئی نسل جوان ہوئی اور اس نے جہاد کیا تب وہ بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ ایمان کا تعلق دل کے اندر سے ہوتا ہے یہی ایمان بالغیب ہے۔ جو اللہ کے آگے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو باغ ہیں۔ شعوری طور پر محسوس کرنے سے ایمان بالغیب ہی زندگی میں تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا مقداد نے ایک بات کی میری ساری زندگی کی نیکیاں لے لی جائیں جس بات سے رسول اللہ کے چہرے پر رونق آگئی تھی کہ ہم وہ بات نہیں کہیں گے کہ جاؤ تم اور تمہارا رب لڑو۔ ہم تو آپ کے پیچھے سے، آگے سے، دائیں سے اوربائیں سے بھی لڑیں گے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ رونق سے جگمگا گیا تھا۔ (بخاری: ۳۹۵۲)