مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَٰلِكَ لَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ وَلَا إِلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
کفر اور ایمان کے درمیان متردد کھڑے ہیں کہ ادھر رہیں یا ادھر۔ نہ تو ان کی طرف ہیں، نہ ان کی طرف (یعنی نہ تو مسلمانوں کی طرف ہیں، نہ مسلمانوں کے دشمنوں کی طرف) اور حقیقت یہ ہے کہ جس پر اللہ ہی راہ گم کردے (یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانون ہدایت و ضلالت کے بموجب راہ سعادت گم ہوجائے) تو پھر ممکن نہیں تم اس کے لیے کوئی راہ نکال سکو
منافقوں سے دوستی کی ممانعت: منافق کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی و تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ نہ یہ مسلمانوں کے ساتھ اور نہ کافروں کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں غیر مسلموں اور کافروں سے دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اور تم انھیں سے دوستی کرکے اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنارہے ہو، یہ حکم نہایت جامع قسم کا ہے۔ جس کا تعلق افراد سے بھی ہے اور حکومت سے بھی۔ جس طرح ایک غیر مسلم شخص سے دوستی لگانے کا نقصان ہوتا ہے اسی طرح ایک اسلامی حکومت اگر غیر مسلم حکومتوں سے دوستی کرے گی تو نقصان اٹھائے گی۔ جس کا نظارہ ہم بارہا دیکھ چکے ہیں اور مسلمان آ ج بھی امریکہ سے دوستی کرکے ذلت و رسوائی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے۔ جو جفتی کے لیے دور ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے۔ (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔ (مسلم: ۲۷۸۴)