الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا
ان (منافقوں) کا شیوہ یہ ہے کہ وہ تمہاری حالت دیکھتے رہتے اور (مآل کار کے) منتظر رہتے ہیں۔ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہے تو (اپنے کو تمہارا ساتھی ظاہر کرتے ہیں، اور) کہتے ہیں۔ کیا ہم بھی تمہارے ساتھ نہ تھے۔ اگر منکرین حق کے لیے فتح مندی ہوتی ہے تو (ان کی طرف دوڑے جاتے ہیں اور اپنا احسان جتانے کے لیے) کہتے ہیں کیا ہم نے ایسا نہیں کیا کہ (جنگ میں) بالکل غالب آگئے تھے پھر بھی تمہیں مسلمانوں سے بچا لیا۔ تو (یقین کرو) اللہ قیامت کے دن تم میں (کہ سچے مسلمان ہو) اور ان میں (کہ نفاق میں ڈوبے ہوئے ہیں) فیصلہ کردے گا، اور یقین کرو (یہ منافق کتنا ہی دشمنوں کا ساتھ دیں مگر خدا کبھی ایسا کرنے والا نہیں کہ کافر، ایمان رکھنے والوں کے خلاف کوئی راہ پالیں۔
منافقین کا طبقہ ہر دور میں موجود رہتا ہے ۔ دور نبوی میں بھی موجود تھا اور آج بھی موجود ہے ۔ ان میں ایمان نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ان کا ایمان صرف مفاد حاصل کرنا ہے۔ منافقین کا آپ کے بارے میں منتظر رہنے سے کیا مراد ہے؟ منافق کہتے ہیں کہ ہم تم پر غالب آنے لگے تھے، لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کرچھوڑ دیا۔ اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں فتح ہماری دوغلی سیاسی پالیسی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جو ہم نے مسلمانوں میں ظاہری طور پر شامل ہوکر اپنائے رکھی لیکن در پردہ ہم نے ان کو نقصان پہنچانے میں کوئی کمی نہیں رکھی، یہاں تک کہ تم ان پر غالب آگئے یہ منافقین کافروں سے کہتے تھے۔ ایمان والوں اور کافروں کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ ہو گا: یعنی دنیا میں تم نے دھوکا اور فریب دے کر وقتی طور پر کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات و کیفیات کی روشنی میں ہوگا جنھیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے ا ور پھر اس پر وہ جو سزادے گا تو تمہیں معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کرکے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا، جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔ مسلمانوں پر کافروں کا غلبہ نہ ہوگا: اس کے مختلف مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ (۱)اہل اسلام کا یہ غلبہ قیامت والے دن ہوگا۔ (۲) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے۔ (۳) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کی دولت و شوکت کا بالکل ہی خاتمہ ہوجائے اور وہ حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہوجائیں۔ (۴) مسلمان جب تک اپنے دین پر عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے کافرا ن پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں کہ ’’یہ سب سے عمدہ معنی ہے‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ﴾ (الشوریٰ: ۳۰) ’’اور مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے فیصلوں کی وجہ سے ہے۔ (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی مغلوبیت ان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔