وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا
اور (دیکھو) اللہ اپنی کتاب میں تمہارے لیے یہ حکم نازل کرچکا ہے کہ جب تم دیکھو اور سنو خدا کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے (یعنی انہیں سرکشی اور شرارت سے جھٹلایا جا رہا ہے) اور ان کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے تو (تم اس مجلس سے اٹھ جاؤ اور) جب تک (اس طرح کی باتیں چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں لوگ نہ لگ جائیں، ان کے پاس نہ بیٹھو۔ اگر بیٹھا کروگے تو تم بھی انہی جیسے ہوجاؤگے۔ (یاد رکھو) خدا منافقوں کو (جو ایسی باتوں میں شریک ہوتے ہیں) اور منکرین حق کو (جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں) سب کو جہنم میں اکٹھا کردینے والا ہے
یہ حکم مکہ میں نازل ہوا تھا۔ ارشاد ہے: ﴿وَ اِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ وَ اِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ﴾ (الانعام: ۶۸) ’’جو لوگ ہماری آیات میں کج بحثیاں کرتے ہیں۔ آپ ان سے الگ رہیے تا آنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو یہ بات بُھلادے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو۔‘‘ یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں اعلانیہ اللہ کی آیات کا مذاق اُڑایا جارہا ہو، اور ان کی غیر ت ایمانی کو ذرا بھی حرکت نہ ہو تو ان مسلمانوں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ (مسند احمد: ۳/ ۴۱۱، ح: ۹۰۴۵) رسول اللہ نے فرمایا :’’کہ تم میں سے جو شخص بُرائی کاکام ہوتا دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اسے مٹادے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی منع کردے۔ اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں اسے بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم: ۴۹) واضح رہے کہ سورہ انعام مکہ میں نازل ہوئی تھی جہاں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے قریش مکہ تھے اور سورۃ النساء مدینہ میں نازل ہوئی یہاں یہود مدینہ اور منافقین اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے تھے۔ اور جیسے آجکل امراء، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے یا شادی بیاہ اور سالگرہ کی تقریبات وغیرہ میں کیا جاتا ہے سخت گناہ ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہیں ہونگے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے گزر جائے۔‘‘(مسلم: ۲۷۷۹)