الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
(وہ منافق) جو مسلمانوں کو چھوڑ کر منکرین حق کو اپنا رفیق اور مددگار بناتے ہیں (اور مسلمانوں کی دوستی پر مسلمانوں کے دشمنوں کی دوستی کو ترجیح دیتے ہیں) تو کیا وہ چاہتے ہیں ان کے پاس عزت ڈھونڈھیں؟ (اگر ایسا ہی ہے) تو (یاد رکھیں) عزت جتنی بھی ہے سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے (یعنی اسی کے اختیار میں ہے، جسے چاہے دے دے، دشمنان حق کے ہاتھ میں نہیں، اگرچہ وہ اس وقت عارضی طور پر دنیوی عزت اور شوکت رکھتے ہیں اور پیروان حق بے سروسامان اور کمزور ہیں)
اور فرمایا: ﴿وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (المنافقون: ۸) ’’عزت اللہ کے لیے ہے رسول کے لیے ہے اور مومنین کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی مثال بکریوں کے دو گلوں کے درمیان پھرنے والی بکری کی سی ہے۔ جو کبھی ایک گلے میں جاتی ہے تو کبھی دوسرے میں۔‘‘ (مسلم: ۲۷۸۴) حضرت عمر فاروق نے ملک شام کے حاکم سے فرمایا ’’تم تعداد میں سب سے کم اور سب سے کمزور تھے، اسلام کی وجہ سے تمہیں عزت ملی، اگر کسی اور ذریعے سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کی تواللہ تمہیں ذلیل کردے گا۔ (الزہد لابن السری: ۸۱۷، فتح القدیر: ۶/ ۱۳۲)