وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا
اور اگر (میاں بی بی میں اصلاح کی کوئی صورت بن نہ پڑے اور ایک دوسرے سے) جدا ہوجائیں، تو اللہ اپنے (فضل کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجائے گا جو عجب نہیں، پہلے کی) کشائش سے دونوں کو بے نیاز کردے گا (یعنی ان میں سے ہر ایک کے لیے کوئی دوسرا انتظام پیدا ہوجاجائے گا جو عجب نہیں، پہلے سے بہتر ہو) اور اللہ بڑی وسعت والا اور اپنے تمام احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے
ایک صورت جو پچھلی آیات میں بیان ہوئی کہ اگر خاوند بیوی کو ناپسند کرے اور اسے چھوڑنا چاہے ۔ دوسری صورت ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں مرد کسی ایک طرف جھک جائے۔ یکساں سلوک نہ کرسکے تیسری صورت، کوشش کے باوجود نباہ کی صورت نہ بنے تو پھر طلاق کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کرلی جائے،ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت نا پسند کیا گیا ہے۔ لیکن بحالت مجبوری جائز ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: طلاق تو حلال ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت نا پسند ہے۔ (ابو داؤد: ۲۱۷۹، ابن ماجہ: ۲۰۱۸) اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اس لیے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔