لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
(مسلمانو ! نجات و سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر (موقوف) ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ (وہ تو ایمان و عمل پر موقوف ہے) جو کوئی برائی کرے گا (خواہ کوئی ہو) ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے، اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے نہ مددگار
شیطان انسان کو سستی نجات کا عقیدہ دیتا ہے جس میں مسلمان یہود و نصاریٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ جسے پیروں کی سفارش، بہشتی دروازے سے گزرنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ان خرافات کی تردید کرتے ہوئے نجات کی صحیح راہ بیان فرمائی اور وہ اللہ تعالیٰ کا قانون جزاء و سزا ہے۔ (۱) ہر انسان کو اس کے اچھے عمل کا اچھا بدلہ اور بُرے عمل کا بُرا بدلہ ملے گا۔ (۲) جزاء و سزا کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ (۳) ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر بھی بدلہ ملے گا حق تلفی نہیں ہوگی۔ (۴) کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا خواہ رشتہ دار ہو یا پیر فقیر۔ (۵) شفاعت کے مستحق وہ ہونگے جن کے لیے اللہ اجازت دیں گے، اس کے علاوہ سب راہیں شیطان کی بتلائی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے انسان گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہ من گھڑت سہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔