سورة الضحى - آیت 11

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کرتے رہیے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

كوئی بات پوچھنے والا سائل: اگر سائل غیر مہذب اور اُجڈ قسم كا انسان ہو تو ایسے شخص كو جھڑكنا نہیں چاہیے۔ بلكہ لا علمی كو جہالت پر محمول كر كے بتا دینا چاہیے اور پوری طرح سمجھا دینا چاہیے اور اگر علم ركھنے والا خود اپنے علم كا زعم و غرور ركھتا ہو، اور اپنے آپ كو كوئی بڑی چیز سمجھتا ہو اور عام لوگوں كو كوئی سوال كرنے یا مسئلہ پوچھنے پر جواب دینا پسند نہ كرے اور انہیں جھڑك دے، یہ بڑے گناہ كی بات ہے اور اسی چیز سے منع كیا گیا ہے۔ رب كی نعمتیں بیان كرتے رہو: یعنی جس طرح تمہاری فقیری كو ہم نے تونگری ميں بدل دیا تم بھی ہماری نعمتوں كو بیان كرتے رہو اسی لیے حضور كی دعاؤں میں یہ بھی تھا۔ خدایا! ہمیں اپنی نعمتوں كی شكر گزاری كرنے والا بنا۔ ان كی وجہ سے تیری ثناء بیان كرنے والا، ان كا اقرار كرنے والا كر دے، اور ان نعمتوں كو ہم پر پورا كر دے۔ (ابو داؤد: ۴۸۱۴) مسند احمد كی حدیث میں ہے: ’’جس نے تھوڑے پر شكر نہیں كیا اُس نے زیادہ پر بھی شكر نہیں كیا، جس نے لوگوں كی شكر گزاری نہیں كی اس نے اللہ كی بھی نہیں كی۔ نعمتوں كا بیان بھی شكر ہے، اور ان كا بیان نہ كرنا نا شكری ہے۔ (احمد: ۴/ ۲۷۸) نعمتوں كے اظہار كا بہترین طریقہ یہ ہے كہ تہ دل سے اللہ كا شكر ادا كیا جائے اور قطعاً یہ نہ سمجھا جائے كہ مجھ میں كوئی خاص قابلیت یا اہلیت تھی جس كی وجہ سے اللہ نے مجھ پر احسان كیا بلكہ انھیں محض اللہ كے فضل و كرم پر محمول كیا جائے، اور اسی جذبہ كے تحت لوگوں كے سامنے بھی اظہار كیا جائے مگر اس احتیاط كے ساتھ كہ اس میں فخر و مباہات كا شائبہ تك نہ ہو۔