وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا
اور ضرور انہیں بہکاؤں گا اور ضرور ایسا کروں گا کہ (حقیقت اور عمل کی جگہ جھوٹی) آرزوؤں میں انہیں مشغول رکھوں اور ضرور انہٰں (مشرکانہ خرافات کا) حکم دوں گا، پس وہ جانوروں کے کان ضرور ہی چیریں گے (اور انہیں بتوں کے نام پر چھوڑ دیں گے) اور میں البتہ انہیں حکم دوں گا۔ پس وہ (میری ہدایت کے مطابق) خدا کی خلقت میں ضرور رد و بدل کردیا کریں گے (سو یہ مشرک اسی شیطان کی وسوسہ اندازیوں پر چلتے ہیں) اور جو کوئی اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق و مددگار بناتا ہے تو یقینا وہ تباہی میں پڑگیا۔ ایسی تباہی میں جو کھلی تباہی ہے
شیطان کے وسوسوں اور دخل اندازی سے باطل امیدیں پیدا ہوتی ہیں جو انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں، شیطان اُس کو اس کی کمزوریوں سے پکڑتا ہے۔ جیسے حضرت آدم کو بہکایا کہ اس درخت کا پھل کھالو۔ لمبی عمر اور ہمیشہ کی بادشاہی ملے گی۔ اور حضرت آدم نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ لمبی عمر کے دھوکے میں انسان نیکی کے کام نہیں کر تا کہتا ہے چلو آج نہیں تو کل کرلیں گے اور پھر وہ کل کبھی نہیں آتی۔ لازوال سلطنت : والدین اولاد کے بارے میں یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اس کو کل رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ اور ان کی دنیا بنانے میں اپنی ساری قوتیں لگا دیتے ہیں۔ آخرت کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ ہمارے بچوں کے ذہن اغوا ہوگئے ہیں صرف دنیا گزارنے کا سوچتے ہیں اور رب شناس نہیں رہے۔ جانوروں کے کان چیرنا: اہل عرب ایسا کرتے تھے کہ جب کوئی اونٹنی دس بچے جن لیتی یا جس اونٹ کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوچکتے تو اسے اپنے دیوتا کے نام پر چھوڑ دیتے اور اس سے کام لینا حرام سمجھتے اور علامت کے طور پر اس کے کان چیردیتے تھے۔ اللہ کی فطرت کو بدلنا: اس سے مراد عورتوں کا مرد اور مردوں کا عورت بننا، بانجھ بننا ہے۔ یعنی کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے اُسے نہیں بنایا گیا مثلاً لڑکوں سے لواطت کرنا۔ منصوبہ بندی کرنا اسقاط حمل سے انسانی نسل کو روکنا۔ اپنی شکل میں اپنی مرضی سے قطع و برید کی جائے جس سے وہ خوبصورت بن جائے۔ میک کے نام پر ابرؤں کے بال اکھاڑ کر اپنی صورتوں کو مسخ کرنا۔ گودنا اور گودوانا یہ سب کام اللہ کے بنائے ہوئے کو بدلنے کے حکم میں شامل ہیں، عورتوں کو گھر سے نکال کر کھیتوں اور معیشت کے میدان میں لانا اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو غلط سمجھتے ہیں اور اس میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ یہ سب پٹیاں شیطان ہی پڑھاتا ہے اور ہر زمانہ میں اس کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ نے بدن گودنے والیوں پر، پلکوں کے بال اتروانے والیوں پر، بال جوڑنے اور جڑوانے والیوں پرلعنت فرمائی۔ (بخاری: ۴۸۸۶) نیز فرمایا: ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اُسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ (بخاری: ۱۳۵۸) ایک روایت میں آتا ہے کہ تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا اور فلاں کو کس نے یہاں تک کہ وہ خیال ڈالتا ہے کہ رب کو کس نے پیدا کیا۔ ایسے وسوسے آئیں تو رب کی پناہ مانگ لو۔ (بخاری: ۳۲۷۶) شیطان کو کوئی دوست نہیں بناتا مگر عملی طور پر ایسے کام کرتا ہے جو شیطان کو پسند ہوں۔ اگر انسان اپنا وقت اللہ کی راہ میں نہیں لگاتے۔ مال رب کی راہ میں نہیں خرچ کرتا اور اولاد کو اللہ والا نہیں بناتا، تو اس نے شیطان سے دوستی کی اور یہ بہت نقصان کا سودا ہے۔