وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
اور جس شخص پر الہدی (یعنی ہدایت کی حقیقی راہ) کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول سے مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف کو لے جائیں گے جس (طرف) کو (جانا) اس نے پسند کرلیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے۔ اور (جس کے پہنچنے کی جگہ دوزخ ہوئی تو) یہ پہنچنے کی کیا ہی بری جگہ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت: ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا خطاب اسی منافق سے ہے جس نے چوری کی تھی اور رسول اللہ نے وحی الٰہی کی بناء پر اس مقدمہ کا فیصلہ بے گناہ یہودی کے حق میں دے دیا تھا تو اس منافق کو سخت صدمہ ہوا اور وہ مدینہ سے نکل کر اسلام اور رسول اللہ کے دشمنوں کے پاس مکہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر اُتر آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی کرنا دین اسلام سے خروج ہے جس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو دین اسلام کے اولین پیروکار اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے۔ اور ان آیات کے نزول کے وقت کوئی اور گروہ مومنین موجود نہ تھا۔ اس لیے رسول اللہ اور صحابہ کرام کا اتباع نہ کرنے والا گناہ گار ہوگا، اور جس قدر مخالفت کرے گا گمراہی میں بڑھتا چلا جائے گا، اس کی ذہنی اور عملی مخالفت اسے جہنم میں پہنچا کے رہے گی۔ گمراہی کی کئی صورتیں ہیں مثلاً شرکیہ عقائد و اعمال اپنالے، سنت چھوڑ کر بدعات میں پڑجائے۔ یا سنت رسول اللہ کو حجت ہی نہ سمجھے۔ یا کوئی نیا نبی تسلیم کرے اور ایسے بدعی عقائد اپنے مذہب میں شامل کرے جن کا اس دور میں وجود نہ تھا وغیرہ وغیرہ، غرض مخالفت اور گمراہی کی بے شمار اقسام ہیں۔ لہٰذا اس معاملہ میں مسلمانوں کو نہایت محتاط رہنا چاہیے۔