إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر الکتاب سچائی کے ساتھ نازل کردی ہے تاکہ جیسا کہ کچھ خدا نے بتلا دیا ہے، اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ اور خیانت کرنے والوں کی طرف داری میں نہ جھگڑو (یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کی وکالت میں فریق ثانی سے جھگڑو)
ان آیات (۱۰۴ سے ۱۱۳تک)کا پس منظر یہ ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر کے ایک آدمی بشیر بن ابیرق نے کسی دوسرے انصاری کے گھر سے آٹے کا ایک تھیلا اور زرہ چوری کی۔ اور چالاکی سے اس کو راتو ں رات ایک یہودی کے گھر امانت رکھوادی۔ تھیلا اتفاق سے پھٹا ہوا تھا۔ جس سے تھوڑا تھوڑا آٹا گرتا رہا اور سراغ لگانے میں بہت آسانی ہوگئی۔ اصل مالک نے پیچھا کیا تو بشیر بن ابیرق کے گھر پہنچ گیا اور اپنی چوری کا ذکر کیا۔ انصاری صاف مکر گیا بلکہ اپنے گھر کی تلاشی بھی کروادی۔ اب مالک یہودی کے گھر پہنچا اور اس سے اپنی چوری کا ذکر کیا۔ یہودی کہنے لگا کہ ایسی زرہ تو میرے پاس فلاں شخص امانت رکھوا کر گیا ہے۔ لہٰذا میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ بالآخر مقدمہ رسول اللہ کی عدالت میں گیا۔ اب چور اور اس کے خاندان والوں نے طے کیا کہ اس واقعہ سے قطعی لاعلمی کا اظہار کردیا جائے اور وہ یہ سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہودی کی بات کا اعتبار نہیں کریں گے اس طرح ہم بری ہوجائیں گے۔ چنانچہ انصاری چور اور اسکے حمایتیوں نے اس واقعہ سے قطعی لاعلمی کااظہار کیا اور قسمیں بھی کھانے لگے جس کے نتیجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان خائنوں کی باتوں میں آگئے اور قریب تھا کہ آپ یہودی کے حق میں قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کا فیصلہ سنا دیتے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اصل صورت حال سے مطلع فرما دیا گیا اور تنبیہ فرمائی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے بددیانت لوگوں کی قطعاً حمایت نہ کریں۔ (۱) اس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہ حیثیت ایک انسان غلط فہمی میں پڑسکتے ہیں۔ (۲) یہ کہ آپ عالم الغیب نہیں ہیں۔ (۳) اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق پوشیدہ رہ جائے اور ادھر اُدھر ہوجانے کا مرحلہ آجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ اُسے متنبہ فرمادیتا ہے اور اصلاح فرمادیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیاء کا تقاضا ہے اور یہ وہ مقام ہے جو انبیاء کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں۔ خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو: اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہیں جنھوں نے چوری خود کی اور اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چورباور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اس آیت میں ایسے مسلمانوں کو خائن قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ بتادیا گیا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کسی قسم کا تعصب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایک فریق اگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو اور وہ حق پر ہو تو اسی کی حمایت کی جائے گی، مسلمان کی نہیں۔