فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
پھر جب تم نماز (خوف) پوری کرچکو، تو چاہیے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو (کہ اس کی یاد صرف نماز کی حالت ہی پر موقوف نہیں۔ ہر حالت میں تمہارے اندر بسی ہونی چاہیے) پھر جب ایسا ہو کہ تم (دشمن کی طرف سے) مطمئن ہوجاؤ۔ تو (معمول کے مطابق) نماز قائم رکھو۔ بلاشبہ نماز مسلمانوں پر وقت کی قید کے ساتھ فرض کردی گئی ہے
چونکہ جنگ کے دوران نماز میں خوف کی وجہ سے تخفیف کردی گئی ہے۔ اس لیے اس کی تلافی کے لیے کہا جارہا ہے۔ کہ کھڑے بیٹھے، لیٹے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ دوسرا جب خوف اور حالت جنگ ختم ہوجائے تو پھر نماز کو اس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔ تیسرا نماز مقررہ وقت پر پڑھنے کی تاکید ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں جس میں کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔ احادیث کی رو سے نمازوں کے اوقات : (۱) نماز فجر۔ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک (۲)نماز ظہر۔ سورج ڈھلنے سے لے کر آدمی کا سایہ برابر ہونے تک۔ (۳)نماز عصر۔ سایہ برابر ہونے سے لے کر دھوپ میں زردی آنے تک۔ (۴)نماز مغرب سورج غروب ہونے سے لے کر شفق غائب ہونے تک۔ (۵)نماز عشاء۔ شفق غائب ہونے سے لے کر ٹھیک آدھی رات تک۔ نماز کب افضل ہے: سیدہ ام فروہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ’’کون ساعمل افضل ہے‘‘؟ آپ نے فرمایا ’’نماز اول وقت پر ادا کرنا۔‘‘ (ترمذی: ۱۷۰) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی خوشنودی نماز کو اول وقت ادا کرنے میں ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ کی طرف سے معافی ہے۔‘‘ (ترمذی: ۱۷۲) سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے فرمایا: ’’علی تین باتوں میں تاخیر نہ کرنا: (۱)نماز میں جب اس کا وقت آجائے۔ (۲)جنازہ کی تدفین میں جب تو وہاں موجود ہو۔ (۳) رنڈوے مرد یا رنڈوی عورت میں جب کہ اس کا بر(کفو)مل رہا ہو۔ (ترمذی: ۱۷۱)