وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور اگر (جنگ کے لیے) تم سفر میں نکلو اور تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر نماز (کی تعداد) میں سے کچھ کم کردو۔ بلاشبہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں (وہ جب موقع پائیں گے تم پر حملہ کردیں گے)
اس آیت میں حالت سفر میں نماز قصر کرنے یعنی دوگانہ ادا کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ لیکن سنت رسول اللہ سے ثابت ہے کہ ہر طرح کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ابتداً سفر و حضر میں نماز دو رکعت فرض کی گئی تھی پھر سفر کی نماز تو اتنی ہی رہی اور حضر کی نماز میں اضافہ ہوگیا۔ (مسلم: ۶۸۵، بخاری: ۱۰۹۰) کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا کسی طرف کا سفر بھی خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں کہ سفر میں خوف ہو تو قصر نماز اد اکرو۔ بعض صحابہ کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اب تو امن ہے، ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا ہے لہٰذا اسکا صدقہ قبول کرو۔ (مسلم: ۶۸۶) حارث بن وہب سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ منیٰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز قصر پڑھائی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل امن میں تھے۔ (بخاری: ۱۰۸۳)