فَأُولَٰئِكَ عَسَى اللَّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا
تو امید ہے، اللہ (ان کی معذوری دیکھتے ہوئے) انہیں معاف کردے، اور وہ معاف کردینے والا، بخش دینے والا ہے
اس آیت میں صرف ہجرت کا ذکر ہے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کرے اور اسے راستے میں ہی موت آجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو ہجرت کا پورا پور اجر دیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ آدمی کے لیے وہی ہے جس کے لیے اس نے نیت کی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت ان ہی کے لیے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کی اس نے نیت کی۔‘‘ (بخاری: ۱) یہ حکم عام ہے اور دین کے ہر کام کو شامل ہے یعنی اس کو کرتے ہوئے اللہ کی رضا شامل ہو تو وہ کام مقبول ہے ورنہ مردود۔ اللہ کی راہ میں سفر خواہ ہجرت کا ہویا جہاد کا یا حج عمرہ کا یا دینی علوم کے حصول کے لیے سفر ہو حصول مقصد سے پہلے موت آجائے تو اللہ تعالیٰ اس کا پور اپورا اجر عطا کردیتا ہے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے نناوے قتل کیے تھے پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے لگا، وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور پوچھا کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’نہیں‘‘ تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا اور سو پورے کردیے، پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی نے اسے کہا کہ فلاں فلاں بستی میں توبہ کے لیے چلے جاؤ، راستہ میں ہی اسے موت نے آلیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکادیا، اب رحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے جس بستی کی طرف وہ جارہا تھا اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ نزدیک ہوجا، اور جس بستی سے جارہا تھا اُسے حکم دیا کہ تو دور ہوجا۔ اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ماپ لو۔ چنانچہ جہاں اُسے جانا تھا وہ بستی ایک بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ (بخاری: ۴۳۷۰)