وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ
اور ( پھر وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں والا وعدہ کیا تھا۔ (پھر جب ایسا ہوا کہ وہ چالیس دن کے لیے تمہیں چھوڑ کر پہاڑ پر چلا گیا تو اس کے جاتے ہی) تم نے ایک بچھڑے کی پرستش اختیار کرلی، اور تم راہ حق سے ہٹ گئے تھے (یہ تمہاری بڑی گمراہی تھی)
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب قوم موسیٰ فرعون سے نجات پانے کے بعد جزیرہ نمائے سینا پہنچی چونکہ یہ پسی ہوئی قوم تھی۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس رات کے لیے کوہ طور پر بلایا تاکہ نئی آزاد شدہ قوم کو عملی ہدایات و احکامات دیے جائیں۔ مصر میں بچھڑوں كو پوجنے کا عام رواج تھا اس لیے جب حضرت موسیٰ کوہ طورپر گئے تو بنی اسرائیل سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے كے پیچھے لگ گئے اور اس کی پوجا شروع کردی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی بچھڑے کو معبود سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد و اعمال میں بُری طرح مبتلا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ وہ مشرک کیسے ہوسکتا ہے! یہ سمجھتے ہیں کہ مشرک صرف وہی ہیں جو پتھر کی مورتیوں کو پوجتے ہیں جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو پتھر کے پجاری اپنی مورتیوں سے کرتے ہیں۔