سورة النسآء - آیت 93

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جو مسلمان کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے، تو (یاد رکھو) اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی پھٹکار پڑی، اور اس کے لیے خدا نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قتل کی تین قسمیں ہیں: (۱)قتل خطا۔ (۲) قتل شبہ عمد۔ (۳) قتل عمد، قتل عمد کا مطلب ہے ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا، اور اس کے لیے ایسا ہتھیار استعمال کر ناجس سے قتل ہوتا ہو مثلاً تلوار، خنجر، گولی وغیرہ قتل شبہ عمد سے مراد ایسا قتل کہ سامنے والے کو ارادتاً ایسی چیز ماری جس سے ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ وہ ہلکی سی ضرب سے مرہی جائے گا۔ اس آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ مثلاً اس کی سزا جہنم ہے۔ جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا، نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایک مومن کا قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا بڑا جرم ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خطبہ حجتہ الوداع) میں فرمایا: ’’اللہ نے تم پر ایک دوسرے کے مال، خون، اور آبرو اسی طرح حرام کردی ہیں، جس طرح تمہارے اس دن (یوم النحر) کی، تمہارے اس شہر (مکہ) کی اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے۔‘‘ (بخاری: ۶۷) اور فرمایا: ’’میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مارکر کافر نہ بن جانا۔‘‘ (بخاری: ۱۷۴۱) کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علماء ان سخت وعیدوں کے پیش نظر قبول توبہ کے قائل نہیں، لیکن قرآن و حدیث کی آیات سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا﴾ (الفرقان: ۷۰) ’’سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ ہر گناہ چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا، توبتہ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے۔ اور اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ جہنم میں رہنے دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بھی اس کی تلافی وازالہ فرماسکتا ہے۔